ہفتہ‬‮   7   دسمبر‬‮   2024
 
 

تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا۔۔۔2

       
مناظر: 946 | 18 Jul 2024  

سیف اللہ خالد /عریضہ

(گزشتہ سے پیوستہ)
قفصہ کی جنگ میں بھی تلوار کے جوہر دکھائے اور کامران رہے، بعدازاں قلعہ اجم کے محاصرہ میں بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا برابر حصہ تھا۔ ابن خلدون کے مطابق سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بہت سی مغربی جنگوں میں شامل رہے ۔ علاوہ بریں (یہ ہمارے پڑوس میں )خراسان، قومس، نہاوند، جرجان، طمیسہ، بحیرہ، دہستان اور ایسی متعدد جنگوں میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے شرکت فرمائی اور اللہ تعالی نے ان تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ یہ تمام فتوحات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ہوئیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں آپ رضی اللہ عنہ ان حضرات میں شامل تھے جو کہ پہرہ دار کی حیثیت سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر تعینات تھے اور بلوائیوں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی بھی ہوئے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا مروان رضی اللہ عنہ بھی بلوائیوں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے کفار کے خلاف جہاد نہ ہوسکا ۔سو اس عہد میں دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ رضی اللہ عنہ کا کسی جہاد میں شامل ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ البتہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات اسلامی اور جہاد کا پھر سے آغاز ہوا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پوری حمایت و موجودگی ان فتوحات و جہاد میں شامل رہتی ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں عقبہؓ بن نافع الفہری کی سرکردگی میں دوبارہ جہاد افریقہ شروع ہوا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک دفعہ پھر اس میں مصروف دکھائی دئیے ۔ اس کے بعد جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اسلامی فوجیں بلاد روم میں داخل ہوئیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ان میں بھی شریک نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں حملہ آور ہونے والا پہلا لشکر جس میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓاور میزبان رسول سیدنا ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے، ان سب حضرات کے ساتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ یہ وہی لشکر ہے جس کے مغفور لہم ہونے کی شہادت لسان نبوت ﷺ نے دی تھی اور اسی وجہ سے اس لشکر میں صحابہ ؓ نے دور دراز سے شرکت کی اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اپنی کبرسنی اور ضعف کے باوجود اس لشکر میں شامل ہوکر لڑنے آئے اور قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران ہی آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اسی مبارک لشکر کے بارے میں امام ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں کہ:سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس لشکر میں شامل تھے ، جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔ سید امیر علی اس بابت اپنی تالیف ہسٹری آف سیریسنس میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کے محاصرے میں عیسائیوں کے خلاف بڑی شاندار خدمات سرانجام دیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی جہاد اسلامی میں گزری اور واقعہ کربلا کے علاوہ ان کی زندگی کے اور بھی بہت سے نمایاں پہلو ہیں اور وہ کسی طور سے جہاد و غزوات میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے تھے۔‘‘
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق
حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حیسنؓ ایک عظیم مجاہد ہی نہیں ، نکتہ رس مفسر اور محدث بھی تھے، جن کی پوری زندگی جہاد اسلامی اور اعلائے کلمۃاللہ کی جدوجہد میں گزری۔ فرقہ وارانہ آہ اور واہ سے فرصت ملے تو معلوم ہو کہ مسجد نبوی کے صحن میں یعنی اپنےنانا ﷺ کی آرام گاہ کے پڑوس میں سب سے بڑا اور موثر حلقہ درس سیدنا حسینؓ ہی کا تھا ، جہاں آپ علم کے موتی لٹاتے ، آیات قرآنی اور احادث نبوی کی تشریحات کرتے ، لوگوں کے مسائل کا حل تجویز فرماتے اور زندگی کی الجھنوں کی گرہیں کھولتے ۔ المیہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکے دل کے چین اور خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ کے لعلؓ سے ہم نے کچھ لیا ہی نہیں ، سیکھا ہی نہیں،بلکہ انہیں سمجھا ہی نہیں، ورنہ وہ باب العلمؓ کےلخت جگر ہی نہیں، فکر حیدریؓ اور تفقہ علویؓ کے بھی وارث تھے ۔مسجد نبوی کے حلقہ علم میں آپؓ کی نطق پاک سے ادا ہونےوالا ایک ایک جملہ آب زر سے لکھے جانے اور حرز جاں بنا لینے کے قابل ہے، مگر ہمیں کیا ؟ ہم بر صغیر کے مسلمان طبعاً مجاور ہیں ،محض تقدس کے پجاری ، ورنہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات جاوداں کا اک اک لمحہ متقاضی ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اپنی زندگیوں کو اسی طرح سے دین متین کے سانچے میں ڈھال لیا جائے ، جیسے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھایا ۔فرد سے معاشرے اور گھر سے ریاست تک ہر مسئلہ اور ہر الجھن کا ایک ہی حل ہے کہ ہم دین اسلام کی ان مقدس شخصیات کی زندگیوں کو محض تقدس کی اونچی طاقوں میں سجانے کے بجائے ، ان کی پیروی کریں ، ان کے نقش پاء سے روشنی پائیں، سبق سیکھیں ، علم حاصل کریں ، رب کو منانے کا سلیقہ سیکھیں ، ورنہ اقبالؒ تو بہت پہلے کہہ گیا ہے کہ :
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا
تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں ‘الفقر فخری’ کا رہا شان امارت میں
”بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را”
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
”غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را”

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0