(گزشتہ سے پیوستہ)
اب ہم نے دونوں کے متعلق کچھ بنیادی معلومات حاصل کی ہیں۔’تفسیر صغیر‘ کے مصنف کے چار پہلو ہیں۔ پہلا، مصنف ہونے کا، دوسرا، مرزا غلام احمد قادیانی کے فرزند ہونے کا، تیسرا، اپنے والد کے قائد اور تصورات کے پیروکار ہونے کا، اور چوتھا، اپنے آپ کو ’خلیفۃ المسیح الثانی‘ ، یعنی اپنے ’مسیح کا دوسرا خلیفہ‘ کہلوانے کا۔ یہاں مرزا بشیر الدین محمود نے’مسیح‘ اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کو کہا ہے اور احمدی/قادیانی حکیم نور الدین بھیروی کو پہلا ’خلیفہ‘ اور مرزا بشیر الدین محمود کو دوسرا ’خلیفہ‘ کہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف کا بھی جائزہ لیا جائے۔7۔ مرزا غلام احمد کی پیدائش ضلع گورداسپور کے قصبے قادیان میں ہوئی اور اسی لیے اپنے نام کے ساتھ قادیانی لکھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان کے 62 رسالوں کا مجموعہ’روحانی خزائن‘ کے عنوان سے ’نظارت اشاعت ربوہ‘ نے ’ضیاء الاسلام پریس ربوہ‘ سے شائع کیا ہے جو کہ 23جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس فیصلے میں دیے گئے حوالے اسی مجموعے سے ہیں۔8۔ ’روحانی خزائن‘ کا جائزہ لینے پر ہمیں کافی تعجب ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے انبیائے کرام، بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام (( Jesus Christ کے متعلق بھی کئی مقامات پر بہت ہی غیر مناسب باتیں لکھی ہیں ہم ان کلمات کو اپنے فیصلے میں نقل کرنا مناسب نہیں سمجھتے کیونکہ اس طرح ان کی بلاوجہ تشہیر ہوگی جو کہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ مسیحی برادری کے لئے بھی دل آزاری کا باعث ہوگی۔-9 مرزا غلال احمد قادیانی کی تحریرات اور’تفسیر صغیر‘ میں کئی مقامات پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کا دعوی ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کےلیے ’نبی‘مسیح موعود‘، ’مہدی موعود‘ اور اس طرح کے دوسرے القابات اختیار کیےگئے ہیں۔-10 اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے کہ مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری نازل کی ہوئی کتاب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول اور نبی مانتا ہو اور آپ صلی اللہ علی وسلم کےبعد سلسلۂ وحی کے انقطاع پر ایمان رکھتا ہو۔ ‘‘ اس کے بعد شق ختم نبوت سے متعلق آیات قرآنی احادیث مبارکہ فیصلہ کا حصہ بنائی گئی ہیں ۔ 12 ۔ امت کا اس پر اجماع کلی قطعی ہے کہ ‚خاتم النبیین‛ کے معنی ‚آخر النبیین‛ ہے اور یہ کلما ت قرآنی قطعی الثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی الدلالۃ بھی ہیں، غیر موول ہیں، لہٰذا لفظ ’’خاتم‘‘ پر لفظی ابحاث قطعی غیر متعلقہ، بے محل اور ناقابلِ توجہ ہیں۔ امام غزالیؒ نے امت مسلمہ کےاس اجماعی عقیدے کی تصریح کرتے ہوئے کہ حضرت محمد ﷺ پر نبوت کے ختم ہونے پر ان کے بغیر کو ئیشخص مسلمان نہیں ہوتا، فرمایا: اس لفظ (خاتم النبیین( سے اور اس کے حالا ت کے قرائن سے امت نے اجماعی طور پر یہ سمجھا ہے کہ آپ نے اپنے بعد کسی نبی کے اور کسی رسول کے کبھی نہ آنے کی با ت سمجھائی ہے، اور یہ کہ اس کی اور کوئی تاویل نہیں ہے، نہ ہی اس کی تخصیص کی گئی ہے؛ اس لیے اس کا انکار کرنے والا امت کے اجماع کا منکر ہے۔13 ۔ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے آئین )’آئین‘( نے بھی اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ’مسلمان‘ وہ ہیں جو ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتے ہیں۔ آئین کا آغاز اللہ تعالیٰ کے نازل اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اقرار سے ہوتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے عوام اختیار کو ایک مقدس امانت کے طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریں گے،۔ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت میں مذکور اسلامی تعلیما ت کے مطابق بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔14اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے آئین (’آئین‘) نے اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ’مسلمان‘ وہ ہیں جو ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتے ہوں۔ آئین کا آغاز اللہ تعالیٰ کے نام اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اقرار سے ہوتا ہے او رکہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے عوام اختیار کو ایک مقدس امانت کے طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریں گے۔ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت میں مذکور اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کا حق رکھتے ہوں۔‘‘
-14 آئین نے ملک کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ رکھا ہے اور تصریح کی ہے کہ ’پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے‘ آئین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پاکستان میں رائج تمام قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور یہ کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو ان احکام سے متصادم ہو متعدد قوانین میں یہ تصریح بھی کی گئی ہے کہ ان قوانین کی تعبیر و تشریح قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام کے مطابق ہوگی، اور قانون نفاذ شریعت 1991ء میں تمام قوانین کے لئے یہ عمومی اصول طے کیا گیا ہے۔ چنانچہ ماضی قریب میں سپریم کورٹ (عمل اور طریق کار) ایکٹ 2023ء کی آئین کے ساتھ مطابقت کے متعلق فل کورٹ نے فیصلہ کیا، تو اس میں اس اصول کی تصریح کی گئی کہ جہاں کسی قانون کی وہ تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت اس تعبیر کو اختیار کرے گی جو قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام اور آئین میں مذکور پالیسی کے اصولوںسے ہم آہنگ ہو۔
-15آئین اور قانون کسی کو اس بات کی اجاز نہیں دیتے کہ وہ کسی اور مذہب کی توہین کرے یا اس کی مقدس شخصیا ت کے متعلق غلط بیانی کرے۔ ’تفسیر صغیر‘ میں اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں بھی مسیحیت اور اسلام دونوں ہی کے متعلق اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیز اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے قادیانیوں کو اس امر کا پابند کرچکے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دینی شعائر کو استعمال نہیں کر سکتے ۔
16 ۔ آئین کی دفعہ 20 میں مذہبی آزادی کے حق کو ’قانون، اخلاق اور امن عامہ کے تابع کیا گیا ہے اور مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295۔ اے نے مذہبی جذبا ت مجروح کرنے اور مقدسا ت کی توہین کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے۔ چنانچہ آزادیِ رائے کے نام پرکسی کویہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی اور کی تضحیک کرے یا اس کے مذہبی جذبا ت کو مجروح کرے۔ حقوقِ انسانی کا بین الاقوامی قانون بھی اس کی ممانعت کرتا ہےاوراقوام متحدہ کے سیاسی و شہری حقوق کے بین الاقوامی میثاق 1966 ء میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کا پیروکار ظاہر کرے جس کے بنیادی عقیدے سے ہی وہ انکاری ہو۔ لہٰذاا قادیانیوں کا اپنے آپ کو ‚مسلمان یا ‚احمدی مسلمان‛ کہلانا درست نہیں ہے۔ ( جاری ہے )
اِنَّ شانِئَکَ ھوَالابتر۔..۔2
مناظر: 749 | 13 Oct 2024