جمعرات‬‮   26   ستمبر‬‮   2024
 
 

عدیلہ کی بازیابی،ماہ رنگ ٹولےکی بدحواسی

       
مناظر: 234 | 26 Sep 2024  

سیف اللہ خالد/ عریضہ
خبر تھی کہ خودکش خاتون دہشت گرد بلوچستان میں داخل ہوچکی ہےاورکسی بھی وقت، کسی بھی جگہ پرحملہ آور ہو سکتی ہے ، اس کی تصاویر بھی سامنے آئیں ، فورسز نے سورسز کو ایکٹو کیا تاکہ واردات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے روکاجاسکے ، اسی دوران دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس کسی بڑی واردات کی چتاونی بھی دینے لگے ، جس نے اطلاعات پر مہرتصدیق ثبت کردی ۔اسی دوران حکومت کو تربت ، لسبیلہ اور دیگر علاقوں سے والدین کی بڑی تعداد نے رابطہ کرکے مدد کی درخواست کی،کہ ان کی بچیوں کو ورغلا کر بلیک میل کرکے بی ایل اے لےگئی ہے ، انہیں تلاش کیاجائے۔ یہ غریب بلوچ خوفزدہ بھی تھے اور اپنی بچیوں کے لئے پریشان بھی، خوف یہ تھا کہ حکومت سے رابطے کی خبر منظرعام پر آئی تو دہشت گرد پورے خاندان کا جیناحرام کردیں گے ۔ اسی دوران اللہ کی مدد یوں آئی کہ ایک مشکوک دہشت گردپکڑا گیا ، جس نے نشاندہی کی کہ سہانےخواب دکھا کر اور بلیک میل کرکے جن بچیوں کو خودکش بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، انہیں تربت کے پہاڑوں میں کہاں رکھاگیا ہے، لہٰذا فورسز نے آپریشن پلان کیااور کامیابی کے ساتھ چار روزقبل ان بلوچ بیٹیوں کو بچالیا گیا ۔ اب سوال یہ تھا کہ ان کی شناخت سامنے آئی تو خاندان کو بھگتنا پڑےگا ، مسئلہ یہ بھی تھا کہ کسی کو میڈیا میں سامنے لائےبغیرحکومت نے دعویٰ کیاتو اسے مانا نہیں جائے گا ۔ سوچ بچار اور مشاورت کے اس عمل کے دوران عدیلہ اور اس کے خاندان نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا اور پوری بلوچ برادری کی بچیوں کو دہشت گردوں کی گندی ہوس ناک نگاہوں سے بچانے کے لئے سامنے آنے کاخطرہ مول لیا یوں عدیلہ وزیراعلیٰ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں آئی اور اس سے ماہ رنگ سمیت تمام خرکاروں کے مکروہ چہرے بےنقاب کردیئے ۔ عدیلہ ایک قابل نرس تھی اور ڈبلیو ایچ او کے پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ماہ رنگ بھی ڈبلیو ایچ او کے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے سمی بھی ایک عالمی ادارے کی ملازم ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ عالمی ادارے جن کی ڈیوٹی سخت اور ڈسپلن مثالی بتایا جاتا ہے ، یہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لئے آغوش مادر کیوں ثابت ہو رہے ہیں ؟ اتنی کھلی چھٹی تو کوئی پاکستانی سرکاری ادارہ بھی اپنے ملازمین کو نہیں دے سکتا جتنی ڈھیل یہ دے رہے ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا مقصد ہی دہشت گردی کا فروغ ہےاور ماہ رنگ جیسیوں کو بھرتی ہی اسی مقصد کے لئے کیا جاتا ہے ۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو اس پر غور ضرور کرنا چاہئے اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے مرتکب عالمی اداروں کی موثر نگرانی اور مناسب کارروائی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ دلچسپ تماشہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے سوشل میڈیا میں عدیلہ کی پریس کانفرنس نے آگ لگا دی ہے ۔ بد حواسی کے عالم میں انہیں کوئی ایک کہانی بھی نہیں سوجھ رہی ، کہا گیا کہ ایک بے گناہ معصوم شہری کو سرکاری دبائو سے پریس کانفرنس پر مجبور کیا گیا ، جب عدیلہ نے اپنی کیمپ کی تصاویر شیئر کردیں ، جن میں وہ بی ایل اے کا ٹریڈ مارک سمجھےجانے والے امریکی اسلحہ کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے تو نئی کہانی مارکیٹ میں لانچ کردی کہ ’’یہ لڑکی کچھ عرصہ قبل پسند کی شادی کے لئےگھر سے بھاگی تھی ، حکومت نے پکڑ کر خودکش بنادیا ‘‘ یہ کہانی آدھی سچ ہو سکتی ہے ، بتائیں تو سہی کس نے ورغلایا تھا ، بیرون ملک سیٹ کروانے کے سہانے خواب کس نے دکھائے تھے اور جب وہ گھر چھوڑ آئی تو بلیک میل کرکے ٹریننگ کیمپ میں کیوں منتقل کردیاگیا ؟ ماہل جسے ہیرو قراردیا جاتا ہے ، اسے کس طرح ورغلایا گیا تھا ، اس کا بھائی اب کیوں کسی ایک بڑے کو ڈھونڈتا پھرتا ہے؟ دہشت گردوں کا سوشل میڈیا ہی نہیں ان کا بیانیہ بھی چھوٹ پر مبنی ہے ، اور اب یہ جھوٹ مزید نہیں چل سکتا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک چند مری اور مینگل سردار ہمیشہ دہشت گردی میں کیوں ملوث ہیں، ان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہر حال میں بلوچستان میں اس استعماری بندوبست کو قائم رکھنا چاہتے ہیں ، جس نے انہیں طاقت ور اور عام بلوچوں کو غلام بنادیا ۔ اس کا پس منظر یہ ہےکہ موجودہ بلوچستان کبھی بھی ایک اکائی نہیں تھا۔ بلوچستان کے نام سے ایک برطانوی ایجنسی 1877 میں قائم کی گئی ، جس کا صدر مقام کوئٹہ تھا۔ برطانوی حکومت نے سرداروں کو خریدا مالی فوائد دے کر ان کے علاقوں میں امن قائم رکھنے کا نظام بنایا۔ یہی نظام پاکستان بننے کے بعد بھی رائج رہا اور آج بھی بلوچستان میں سیاسی طور پر موجود ہے، جس نے سرداروں کی گرفت کو مضبوط کیا اور عام بلوچ کو محض غلام بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جس خطے کا نام آج بلوچستان ہے ، یہاں قلات ، خاران ، مکران اور لسبیلہ کے نام سے چار ریاستیں قائم کی تھیں ، جو برطانوی راج کے تابع تھیں لیکن ان کا نظام حکومت اپنا تھا ، ان میں قلات کی خانیت کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، اور یہ علاقہ افغان اور مغل سلطنتوں کے درمیان کئی بار بدلا گیا ۔قیام پاکستان کے فارمولے کے تحت تام ریاستیں پابند تھیں کہ پاکستان یا بھارت کسی ایک ملک کا حصہ بنیں ، لہٰذا خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے تاخیری حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے خاران، مکران اور لسبیلہ نے قلات کی بالادستی کو مسترد کیا اور پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا ، بعد میں قلات نے بھی اپنافیصلہ پاکستان میں شمولیت کےحق میں سنایا ۔ (جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0