جمعرات‬‮   21   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

بیانیہ کی جنگ

       
مناظر: 933 | 28 Sep 2024  

سیف اللہ خالد /عریضہ

دنیا بھر میں دہشت گردی ، ملک دشمنی اور ملکی ترقی کا ہر بیانیہ درس گاہوں اور ارباب علم ودانش کی مجلسوں میں طے پاتا ہے ، دہائیوں کے جاں گسل تجربہ کے حامل اور بحر علم کے شناور قومی ضروریات،زمینی حقائق،دستیاب وسائل اور دشمن کے اطوار و خصائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور قومی نمائندے پارلیمان میں قانون و ضابطے کا جائزہ لے کر ان منصوبوں میں رنگ بھرتے ہیں ، یوں اجتماعی دانش کے نتیجے میں وجود میں آنے والے یہ منصوبے عمل درآمد کے لئے اداروں کے سپرد کر دئے جاتے ہیں کو اپنی صلاحیتوں سے ان میں جان ڈالتے اور چار چاند لگاتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں پالیسی سازی کے یہ حساس ترین امور بھی چند اٹھائی گیر قسم کے بکائواذہان وقلوب کے ہتھے چڑھ چکے ہیں ، جن بیچاروں کا مبلغ علمی صرف اتنا ہے کہ بصد کوشش لکھاہوا پڑھ سکتے ہیں،سمجھنے سے ان کا تعلق ہی نہیں ، البتہ اس کے بدلے ملنے والے نوٹ پوری احتیاط سے گننے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ہنر ان کا صرف یہ ہے کہ شب 8بجے کے بعد ٹی وی چینلز کے سرکس میں چیخنے،چنگھاڑنے، زبان کی قینچی چلانے ، مخالفین کو گالی دینے اور گالی کھانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ البتہ ایک خوبی اضافی ہے کہ جس کا کھاتے ہیں اسی کا گاتے ہیں،ملک کانفع ونقصان یا معاشرے کا حاصل وصول ان کا مسئلہ نہیں،بس ہڈی وقت پر ملنی چاہئے ۔ شخصیت پرست انتشاری ٹولہ اس معاملے میں سر دست سر فہرست ہے ،عقل ، علم اورمعقولیت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ،پوری یکسوئی کے ساتھ درآمدی بیانیہ کی پاسداری کرتے ہیں اور اس دوران اپنی عزت و بے عزتی سے بھی ماورایٰ دکھائی دیتے ہیں ، جن باتوں پر شرفاء میں تھو تھو کی جاتی ہے ان کے ہاں ، وجہ افتخار قرار پاتی ہیں ۔
اس اندھیر نگری میں کبھی کبھار روائت شکنی کی کوئی شمع امید کی روشنی پھیلاتی دکھائی دے جائے تو روح سرشار اور طبیعت شاد ہوجاتی ہے، یہ الگ بات کہ بڑھک بازوں کی ہفوات کو شہ سرخیوں میں پیش کرنے والا میڈیا ایسی کاوشوں کو پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا ، بہت ہو اتو کسی اندرونی صفحے پر چند جملوں میں ’’حاضری‘‘ لگوادی جاتی اور بس۔ ایسی ہی ارباب علم ودانش کی ایک مجلس گزشتہ دنوں بحریہ یونیورسٹی میں بھی سجائی گئی ، جس کی میزبانی کے فرائض معروف تھنک ٹینک’’ پاکستان انسٹیٹوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پکس) ‘‘اور بحریہ یونیورسٹی کی سوشل سائنسز فیکلٹی نے مشترکہ طور پر ادا کئے۔ پاکستان میں انسداد دہشت گردی پر اس ایک روزہ عالمی کانفرنس کا باقاعدہ افتتاح وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کیا جبکہ مقررین میں سری لنکا کے سابق آرمی چیف جنرل دایا رتنائکے،سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹینٹ جنرل خالد ربانی (ر)‘ بحریہ یونیورسٹی کے ریکٹر وائس  ایڈمرل (ر) آصف خالق‘ چیئرمین پکس میجر جنرل محمد سعد خٹک‘ سابق سربراہ نیکٹا احسان غنی‘ سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام ‘ آسٹریلین سکالر ڈاکٹر مارٹن کیر‘ چینی سکالر پروفیسر سونگ ژی ہو‘ سڈنی یونیورسٹی کی سکالر ڈاکر فرح ناز‘ سنگا پور کے سکالر عبدالباسط، وفاقی وزارت تعلیم میں پراجیکٹ ڈائریکٹر میجر ڈاکٹر غلام قمر (ر)‘ معروف دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل انعام الحق (ر)‘ ساسی یونیورسٹی کی چیئر پرسن ڈاکٹر ماریہ سلطان‘ بحریہ یونیورسٹی سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر آدم سعود ‘بحریہ یونیورسٹی لا سکول کے ڈین ڈاکٹر فیاض اور نیکٹا کے ڈائریکٹر دیب گیلانی شامل تھے ۔ اپنے موضوع کے حوالہ سے یہ کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل تھی ۔جس میں دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ۔ احسن اقبال نے درست طور پاکستان کا موقف پیش کیا اور بتایا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے ، پاکستان کے دشمن ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ دشمن ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت اور ادارے اس صورتحال سے خبردار ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاشی ترقی اور امن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ہماری حکومت نے ماضی میں نیشنل ایکشن پلان تیار کیا تھا،داخلی سلامتی کی قومی پالیسی بنائی تھی، آپریشن ضرب عضب بھی ہمارے دور میں ہوا تھا اور اب عزم استحکام ورژن بھی لایا گیا ہے۔اس کانفرنس میں اس امر کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ عزم استحکام دراصل نیشنل ایکشن پلان کو ہی آگے بڑھانے کا نام ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے مل جل کر بے مثال کردار ادا کیا ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ معاشی ترقی کے لئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، جس کے حصول کے لیے حکومت کو کوشش کرنی چاہئے،بلا شبہ دہشت گردی سے نمٹنا کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے اوراس کے لیے عالمی اورعلاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔ اس کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین نے انکشاف کیا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران حاصل کی ہوئی کامیابیاں دنیا کے کئی ممالک میں بطور سبق پڑھائی جاتی ہیں ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی شراکت دار رہا ہے۔پاکستان کی شمولیت کے بغیر بہت ساری کامیابیاں ممکن نہیں تھیں۔ پاکستان نے عالمی امن اور علاقائی استحکام کے لیے ہمیشہ تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ان وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے جن کی وجہ سے یہ خطرہ پھیلتا ہے۔ بیروزگاری اور معیاری تعلیم کا فقدان اہم وجوہات میں سے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب اس طرح کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے ،ملکی جامعات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ وہ دہشت گردی اور دیگر مسائل کا تجزیہ کریں اور حل تجویز کریں ۔ بیانیہ سازی کا عمل ٹی وی سرکس کے جوکروں سےواگزار کروانے کے لئے لازم ہے کہ ارباب دانش کو انگیج کیا جائے ، ملک اور بیرون ملک سے ماہرین فن کو بلا کر اس طرح کی محافل سجائی جائیں اورمباحث کوفروغ دیا جائے ۔قومی الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ سجائے جانے والے’’ سیاسی سٹیج شو‘‘کی موجودگی میں کسی سنجیدہ بحث کی گنجائش ویسے تو کم ہی دکھائی دیتی ہے ، لیکن کوشش کرنی چاہئے کہ اس طرح کی مفید ایکٹوٹیز کو بھی تھوڑا وقت ٹی وی سکرین پر دیا جائے ، تاکہ عوام کو گدھے گھوڑے کا فرق معلوم ہو سکے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب بھارتی حکمرانوں کی ہمیشہ سےپالیسی رہی ہے کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے،اب بھی وہ اسی پالیسی پر عمل  پیرا ہیں۔دوسری جانب یہاں کا شخصیت پرست انتشاری ٹولہ بھی اسی راہ پر عمل پیرا ہے۔ الزام اورگالی ان کی سیاست، دھرم بلکہ پالیسی ہے ، ایسے میں کچھ صاحب علم لوگوں کا موقف بھی سامنے آئے گا توکم ازکم عوام کو سچ اور جھوٹ میں فرق کا علم ہوجائے گا ۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0