انڈیا کی تہاڑ جیل میں کئی برسوں سے قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما محمد یاسین ملک کی اہلیہ کو پاکستان کی نگراں حکومت میں وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے انسانی حقوق مقرر کیا گیا تواس اقدام کو جہاں پاکستان میں ایک اہم تقرری قرار دیا گیا وہیں انڈیا میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری اور جموں و کشمیر کے انچارج ترون چگ نے جمعہ کو اس حوالے سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کی پڑوسی ملک میں وزیر کے طور پر تقرری اس حقیقت کی علامت ہے کہ ’پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔‘ یاسین ملک کو گذشتہ سال دلی کی ایک عدالت کی طرف سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے ایک دن بعد جب میں ان کی اہلیہ مشعال حسین ملک سے اسلام آباد میں ان کے گھر ملاقات کے لیے پہنچی تو وہ کشمیر سے آنے والے لوگوں کے ایک گروپ سے ملاقات کر رہی تھیں۔ وہ سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں ملبوس تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اداسی نمایاں تھی۔ مشعال کے ساتھی نے بڑی شائستگی سے ڈرائنگ روم کے الگ کونے میں کچھ دیر بیٹھنے اور انتظار کرنے کی درخواست کی۔ دیواروں پر یاسین ملک کی تصاویر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کی رنگا رنگ تصاویر آویزاں تھیں۔ کشمیر سے جو گروپ یاسین ملک کی حمایت کا اظہار کرنے وہاں پہنچا تھا، میں نے ان کی کچھ باتیں سنی۔ ان میں سے ایک نے جب کہا کہ ’یاسین ملک ایک عظیم انسان تھے‘ تو ان کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے مشعال نے کہا، ’آپ ان کے بارے میں ’تھے‘ کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ یہیں ہیں۔ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں ان کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دوں گی۔‘ یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین ہیں۔ کشمیری نژاد مشعال پاکستانی شہری ہیں۔ انھوں نے سنہ 2009 میں یاسین ملک سے شادی کی تھی۔ اس شادی کا جشن پورے پاکستان میں دھوم دھام سے منایا گیا تھا جبکہ انڈیا میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ صحافی اور تجزیہ کار اعجاز سید نے کہا کہ اس وقت ان کی شادی پر خوب باتیں ہوئی تھیں۔ ’کچھ لوگوں نے تو اسے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ذریعے کرایا گیا ملن تک قرار دیا تھا۔ لوگ دونوں کے درمیان فاصلے، پاکستان اور انڈیا کی دشمنی اور یاسین ملک کی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہاں تک کہہ رہے تھے کہ یہ رشتہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ بہر حال یہ شادی ابھی تک قائم و دائم ہے۔‘ بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے یاسین ملک سے آخری بار بات سنہ 2019 میں کی تھی اور یہ گفتگو انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے ایک دن پہلے ہوئی تھی۔ مشعال کہتی ہیں کہ ’یاسین نڈر ہیں۔ اس بات سے مجھے بہت طاقت ملتی ہے۔ اس سے میرے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور میں ان کی بیوی بن کر واقعی خوش قسمت محسوس کرتی ہوں۔ اگرچہ میں نے ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارا ہے تاہم انھیں اپنے شوہر کے طور پر پا کر مجھے لگتا ہے کہ میں دنیا کی سب سے خوش قسمت عورت ہوں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’وہ نہ صرف میرے شوہر ہیں بلکہ میرے رہنما بھی ہیں۔ وہ میری محبت، میری روح ہیں۔‘ مشعال حسین ملک کو اب پاکستان کی نگراں حکومت میں وزیراعظم کی خصوصی مشیربرائے انسانی حقوق اور ویمن امپاورمنٹ (خواتین کی بااختیاری) مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی اس عہدے پر تقرری کے حوالے سے پاکستان میں مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ سیاسی مبصر سہیل وڑائچ اس تقرری کو علامتی اور اہم قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مشعل اپنے شوہر کے لیے آواز اٹھانے میں حوصلہ مند رہی ہیں۔ ’انسانی حقوق کے معاملات سے ان کا تعلق ذاتی رہا ہے لہٰذا یہ ایک بہترین تقرری ہے جسے سراہا جا رہا ہے۔‘ صحافی حامد میر ان کی تقرری پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’عبوری حکومت کی کابینہ میں پاکستان کے تمام خطوں اور صوبوں کے لوگوں کی نمائندگی ہوئی ہے۔ مشعال اس میں کشمیر کی علامت ہیں۔ اس کابینہ کے زیادہ تر وزراء اور مشیر ٹیکنو کریٹس ہیں اور یہ تقرریاں سیاسی نہیں ہیں۔ یہ ایک عبوری انتظام ہے اور اس کا واحد مقصد عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ اور ان کا مقصد صرف اس وقت تک روزمرہ کے امور چلانا ہے جب تک کہ کوئی منتخب حکومت اقتدار نہیں سنبھال لیتی۔‘ لیکن سہیل وڑائچ کی نظر میں مشعل کی تقرری کے واضح سیاسی معانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ انڈیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ کشمیر کو فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ یہ علامتی طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان مشعال کی آواز کی حمایت کرتا ہے۔ وہ اس آواز کی علامت ہیں جو وہ اپنے شوہر کے منصفانہ ٹرائل اور انڈین حکام کے سامنے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے اٹھاتی رہی ہیں۔‘ مشعال نے یاسین ملک سے سنہ 2005 میں اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت یاسین ملک پاکستان کے دورے پر تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہو گیا اور چند سال بعد دونوں نے شادی کر لی۔ مشعال اپنے شوہر سے 20 سال چھوٹی ہیں۔مشعال جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند اپنے شوہر سے ملنے کے لیے پچھلے پانچ سالوں سے انڈین حکومت سے ویزا مانگ رہی ہیں۔ سنہ 2014 تک وہ پانچ بار انڈیا کا دورہ کر چکی تھیں۔ انھوں نے اپنی شادی شدہ زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان میں تنہا گزارا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی پرورش اکیلی کر رہی ہیں۔ اپنے شوہر کی طرح وہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ لیکن تجزیہ کار اعجاز سید کا کہنا ہے کہ مشعال اور یاسین ملک کے کشمیر کے بارے میں نقطہ نظر میں فرق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یاسین ملک آزاد کشمیر کی بات کرتے ہیں جبکہ مشعال کشمیر کو پاکستان کا حصہ بتاتی ہیں۔‘
(بشکریہ بی بی سی )