اسلام آباد(نیوز ڈیسک )اگست 2019میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد علاقے میں سنسر شپ اپنے عروج پر ہے اور مودی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس کے اقدامات پر تنقیدی رپور ٹیں شائع یا نشر نہ ہوں، کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں صحافیوں،انسانی حقوق کے کارکنوں اور یہاں تک کہ عام شہریوں کو محض سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنے پر گرفتار کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام شہریوں کے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام اکائونٹس کو مسلسل سنسر کیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کویقینی بنایا جا سکے کہ حکومت کے دعوئوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کشمیریوں کے موبائل فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں اور ہر فرد کی سرگرمیوں پر بھارتی ایجنسیاں نظر رکھے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے مین اسٹریم میڈیا کو زمینی حقائق کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز سیاسی آوازوں کو نام نہاد”قومی سلامتی”کی آڑ میں خاموش کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں سنسر شپ کے نئے نظام کا مقصد کشمیریوں کو تحریک حق خودارادیت سے دستبردارہونے پر مجبورکرنااور انہیں بھارتی پالیسیوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سینسر شب کے ذریعے چھپا یانہیں جا سکتا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں اگست 2019 سے سنسر شپ اپنے عروج پر ہے
مناظر: 308 | 28 Aug 2023