جنیو ا23ستمبر( نیوز ڈیسک ) جنیوا میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اختلاف رائے کو بے رحمی سے دبانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 54ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ماہرین، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں اورماہرین تعلیم شرکت کی ۔
کشمیری نمائندوں الطاف حسین وانی، سردار امجد یوسف ، ڈاکٹر شگفتہ اشرف ،ایڈوکیٹ پرویز شاہ،سمیع مرزا ،آصف جرال، بیرسٹر علی کاظمی، فہیم کیانی سمیت کئی مقررین نے کہا کہ جموں وکشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت کے جابرانہ فوجی قبضے سے خطے کی مقامی آبادی کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔انہوںنے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ دنیا کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کو نظر انداز کر رہی ہے جو خطے میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران لاکھوںکشمیریوں کو قتل کیا ہے۔انہوںنے کہا کہ اگست 2019 کے بعد مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک حد تک بگڑ چکی ہے۔
مقررین نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ علاقے میں اظہار رائے کی آزادی اور پرامن حق اجتماع سمیت لوگوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں، ہزاروںکشمیری جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں ، مودی حکومت نے این آئی اے اوردیگر بدنام زمانہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو کشمیریوںکو ہراساں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔انہوںنے کہا کہ انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویز کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت قید کیا گیا ہے ، مودی حکومت مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذموم پالیسی پر تیزی سے عمل پیرا ہے اور وہ کشمیریوں کو انکی مخصوص شناخت ، ثقافت اور تہذیب سے محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
مقررین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے اپنا کردار اداکرے۔