تحریر : عاطف عزیز
پاکستان اس وقت بدقسمتی سے جن محاذوں پر مسائل سے دوچار ہے ان میں سب سے اہم محاذ معیشت ہے ۔معاشی ابتری نے نہ صرف ملکی سطح پر ریاستی معاملات کو متاثر کیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی اس کے تباہ کن اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں ۔فی کس آمدنی میں بتدریج کمی اور مہنگائی کی شرح میں ہوش ربا اضافے نے عام آدمی کی زندگی وبال بنا رکھی ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارا معاشرہ اور ادارے فکری یکسوئی کے ساتھ اس معاشی چیلنج کا سامنا کرتے اور حکمت عملی بالغ نظری اور سنجیدگی کے ساتھ نکات کا راستہ نکالتے لیکن افسوس کہ ایک دوسرے پر تنقید سیاسی محاذ آراءی اور مایوسی سے بات آگے نہ بڑھ سکی جس کا نتیجہ مزید ابتری کے سوا اور کچھ نہ نکلا ۔اگر متانت اور خلوص نیت سے دیکھا جائے تو پاکستان میں آج بھی کئی سیکٹرز ایسے ہیں جن میں محنت اور دلچسپی سے پاکستان کی معاشی تقدیر بدلی جا سکتی ہے ۔مثلا رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں اتنی گنجائش اور طاقت موجود ہے کہ اس میں ایک قومی ملی اور ریاستی تحریک کے ساتھ دوبئی کی طرز پر ایک انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انفرادی طور پر لوگوں اور کمپنیوں نے اس شعبے میں کامیابیوں کی نا قابل یقین مثالیں قائم کی ہیں تو مجموعی سطح پر یہ شعبہ پاکستان کو ترقی اور معاشی بہبود کے کس مقام تک پہنچا سکتا ہے ۔اگر ریاست اس بارے میں کوئی قابل عمل دیر پا اور سنجیدہ پالیسی وضع کرے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رئیل اسٹیٹ پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔اسی شعبے میں نئے رجحانات نئے آئیڈیاز اور نئی جہتوں کے ساتھ کام سے دور رس نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔اسٹیٹ بینک کے دو ہزار اکیس کے ایک اندازے کے مطابق رئیل اسٹیٹ پاکستان کی ٹوٹل جی ڈی پی میں بتیس ارب ڈالر کے حصے کے ساتھ ایک بڑے ستون کے طور پر کھڑا ہے جسے ابھی عالمی معیار اور جدید رجحانات کے ساتھ کئی گنا مزید بڑھایا جا سکتا ہے ۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سیکٹر میں ترقی سے ایک ساتھ کئی شعبوں کو سہارا ملتا ہے اور پیسوں کی گردش لاکھ لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچاتی ہے ۔رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کرپٹو کرنسی میں انوسٹمنٹ اور اس سیکٹر میں حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے سے بھی خراب ملکی معیشت کو کافی سہارا مل سکتا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی اور اقتصادی رجحانات کو بھانپتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھایا جائے ۔برطانیہ میں کرپٹو کرنسی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ کرپٹو رکھنے والے ٹیکس نیٹ میں بھی لائے جا چکے ہیں۔ چین نے سنہ 2021 میں کرپٹو میں کاروبار، مائننگ اور ٹریڈنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں کرپٹو کرنسی رکھنے پر فی الحال کوئی پابندی نہیں ہے۔کرپٹوکرنسی کی تجارت کے پلیٹ فارم ’بائنینس‘ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کرپٹو کرنسی کی کُل مارکیٹ کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ’16 فیصد سے ذائد امریکیوں نے کسی نہ کسی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہےنومبر 2021 میں یہی مالیت تین ٹریلین کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ گزشتہ برس اس میں 50 فیصد کے قریب کمی آئی لیکن ماہرین کے مطابق یہ تجارت اب بحرانوں سے نکل آئی ہے اور اب اس میں واضح اضافے کی توقع ہے۔گلوبل کرپٹو کرنسی انڈیکس کے مطابق سنہ 2022 میں پاکستان اس کرنسی کے لین دین کی درجہ بندی میں چھٹے اور 2021 میں تیسرے نمبر پر تھا۔کرپٹو کرنسی سیکٹر میں چند خرابیوں کے باعث بعض لوگ اس سیکٹر کی افادیت سے انکاری ہو جاتے ہیں جو کہ ایک غیر منطقی سوچ ہے ۔ بنیادی مسءلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ریگولائزیشن کی کمی اصول و ضوابط کا فقدان اور طریقہ کار وضع نہ سے ایسے مساءل جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کسی ایک سیکٹر اور صنعت کو ہی برا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مواقعوں کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے اور میسر راستوں سے ذیادہ سے ذیادہ فائدے حاصل کیے جائیں ۔پاکستان اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے وہ ایک مربوط حکمت عملی اور معاشی ویژن کے متقاضی ہیں تا کہ جدید قوموں کی طرح نءے راستے تلاشتے ہوئے کسی معاشی انقلاب کی بنیاد رکھی جا سکے ۔