سرینگر(نیوز ڈیسک )غیر قانونی طورپر زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں مودی کی زیرقیادت ہندوتوا بھارتی حکومت کی طرف سے05اگست 2019کو مسلط کردہ فوجی محاصرے کی وجہ سے کشمیریوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہور ہے ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 4 سال قبل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کرنے کے بعد بھارت نے پورے مقبوضہ جموں و کشمیرکو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا۔مودی حکومت کے اس اقدام کا مقصد مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کشمیریوں سے انکی منفرد شناخت، زمینیں اور املاک اورسرکاری ملازمتیں چھیننا ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 17 خواتین سمیت 845 کشمیریوں کو شہید کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں نے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران ایک ہزار115سے زائد مکانوں کو نقصان پہنچایا اور 129 خواتین کی آبرو ریزی کی ۔ہزاروں حریت رہنما، کارکن، علمائے کرام، صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار بشمول کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف اور دیگر مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ بھارت 5 اگست 2019 کے بعد خاص طورپر کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت کے خلاف وحشیانہ اقدامات عالمی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔
ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس نے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے میںتنازعہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نہتے کشمیریوںکو بھارتی مظالم سے نجات دلائی جاسکے ۔