اسلام آباد(نیوز ڈیسک )نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کیطرف سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر سے متعلق دو بلوں کی منظوری کشمیریوں کو سیاسی و معاشی طورپر بدحال کرنے کا ایک اور اقدام ہے۔ اس قانون سازی کا مقصد مقبوضہ علاقے کی اسمبلی میں مسلم اکثریتی نمائندگی کم کرنا اور ریزرویشن قوانین کی تنظیم نو کے نام پر علاقے میں تقرریوں کے لیے غیر کشمیریوں کے لیے دروازہ کھولناہے۔
کشمیر میڈیا سروس نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ لوک سبھا میں مقبوضہ جموںوکشمیر سے متعلق دو بلوں کی منظوری مقبوضہ علاقے کی مسلم آبادی کو سیاسی اور معاشی طور پر بدحال کرنے کی کوشش ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا نے بدھ کے روز جموں و کشمیر کی تنظیم نو ترمیمی بل منظور کر کیا جس کا مقصد کشمیری پنڈتوں اور آزاد جموںو کشمیر سے مقبوضہ علاقے میں جا بسنے والے ہندو ؤں اور سکھوں کے نام پر غیر مسلموں کے لیے تین نشستیں بڑھانا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل بھی منظور کیا، جس کا مقصد تقرریوں اور داخلوں میں ریزرویشن کے اہل افراد کی اہلیت کی ازسر نو وضاحت کرناہے۔
کے ایم ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی انتخابی حد بندی، ہندو اکثریتی جموں کو زیادہ نشستیں دینا اورغیر مسلموں کے لیے 3 نشستیں مختص کرنے کا مقصد مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں ہندو وزیر اعلیٰ لانا ہے جوہندوتوا کی ایک دیرینہ خواہش رہی ہے۔
رپورٹ کہا گیا ہے کہ مودی حکومت پنڈتوں کے لیے دو اور 1947 کے بعد آزاد جموں و کشمیر سے ہجرت کرننے والے ہندوؤں ،سکھوں کے لیے ایک نشستیں مختص اور مختلف برادریوں کو ملازمتوں، تعلیمی اداروں اور مقبوضہ علاقے کی مقننہ میں ریزرویشن فراہم کرکے کشمیری مسلمانوں کو بے اختیار کرنے کی ایک اور کوشش کر رہی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم تشخص کو مٹانا اور ہندو تہذیب قائم کرنا آر ایس ایس-بی جے پی کا ایک پرانا ایجنڈہ ہے۔