سرینگر(نیوز ڈیسک ) سری نگر میں مقیم سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق چھیننے کے لیے عدلیہ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اپنے انٹرویوز اور بیانات میں نشاندہی کی کہ 2014 میں فسطائی مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارتی عدلیہ بالکل بھی غیر جانبدار نہیں رہی ہے بلکہ مکمل طور پر فرقہ پرست حکومت کے تابع فرمان ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے زیر اثر بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مودی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کی ممکنہ طور پر توثیق کر کے انصاف کی دھجیاں اڑا سکتی ہے۔ بھارتی سپریم دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں پر اپنا فیصلہ 11دسمبر بروز پیر سنائے گی۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کی توثیق کرنا بھارتی عدلیہ کیطرف سے انصاف کا ایک اور قتل ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت کا 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے فیصلے کا بنیادی مقصد کشمیریوں سے ان کے تمام بنیادی حقوق چھیننا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت مقبوضہ علاقے کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور وسائل سمیت سب کچھ چھیننا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو 5 اگست 2019 کو ہندوتوا حکومت کی طرف سے چھینے گئے اپنے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر سڑکوں پر آنا ہوگا۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے کہا کہ جب بات بھارتی یاکشمیری مسلمانوںکے مقدمات سے متعلق ہو تو بھارتی عدلیہ بی جے پی کی ہندو توا حکومت کا ساتھ اور ہندوتوا کے نظریے کو ترجیح دیتی ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر ختم کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کو بھارت پر دباو¿ ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے آئین میں کشمیر سے متعلق 370 اور 35Aکی دفعات بحال کرے۔