ممبئی (نیوز ڈیسک )بھارتی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائیکورٹ کی طرف سے نوعمر لڑکیوں کو اپنی جنسی خواہشات پر قابو پانے کی تجویز دینے کے فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کو اس طرح کی ہدایات نہیں دینی چاہیئں۔
بھارتی این ڈی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کولکتہ ہائیکورٹ کی جانب سے زیادتی (ریپ) کے مقدمے میں ایک لڑکے کو بری کرنے کے فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کولکتہ ہائیکورٹ نے اکتوبر 2023 میں نوجوان لڑکے کو بری کردیا تھا جبکہ ریاست بنگال کی سیشن کورٹ نے لڑکے کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی تھی۔
ملزم نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور کولکتہ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لڑکے کو بری کردیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نوعمر لڑکیوں اور لڑکوں کو ہدایات اور تجاویز بھی دی تھیں۔ ہائیکورٹ نے تجاویز میں کہا تھا کہ لڑکوں کو خواتین یا لڑکیوں کی عزت کرنی چاہیے، وہ اپنے دماغ کی تربیت کریں، وہ لڑکیوں کو نہ چھیڑیں، انہیں تنگ نہ کریں۔
ہائیکورٹ نے فیصلے میں لڑکیوں کو تجاویز دی تھیں کہ وہ اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھیں، بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کو 2 منٹ کا جنسی لطف لینے کے بجائے اپنی جنسی خواہشوں پر قابو رکھنا چاہیے۔ یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ نئے مسئلے پیدا کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ کیس کے ملزم لڑکے اور اس پر الزام لگانے والی لڑکی کے درمیان رومانوی تعلقات تھے، اس دوران لڑکے نے ریپ کر دیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے کولکتہ ہائیکورٹ کے فیصلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ ماہ دسمبر کے اوائل میں حکومت بنگال کو نوٹس بھیجا تھا کہ اس نے مذکورہ فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی یا نہیں؟ کیس کی سماعت کے دوران اعلیٰ عدالت نے ہائیکورٹ کے ججز کی رائے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ججز کو مذکورہ حساس معاملات پر اپنی رائے دینے اور تبلیغ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، ججز کو قانونی اور شواہد کے مطابق فیصلے دینے چاہیے۔ کولکتہ ہائیکورٹ کے فیصلے کی ہر سطر میں نامناسب اور غلط الفاظ اور تجاویز شامل ہیں۔ اس مقدمے کی آئندہ سماعت 12 جنوری کو ہوگی۔