جنگ کے شعلے پاکستان کے پڑوس تک آن پہنچے ہیں ،لیکن خیر کی خبر یہ ہے کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام بڑے کھلاڑی نہ صرف بے خبر نہیں بلکہ باہم مربوط اور تیار ہیں بلکہ صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہوئے ، اپنی باری پر چال چلنے کو مستعد بھی ۔ 7اکتوبر کو حماس کے حملوں کی صورت جنگ کی بساط پر پہلی چال جس مقصد کی خاطر چلی گئی تھی ، وہ قریب آرہا ہے ۔ امریکہ نے وقت ضرور لیا لیکن مایوس قطعاً نہیں کیا ، بالآخر وہ اس جال میں قدم رکھنے پر مجبور ہوگیا ہے ، جو بچھایا ہی کسی بڑے جانور کے شکار کی خاطر تھا۔9اکتوبر کے عریضہ میں یہ تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ اسرائیل کے حملے طویل ہوئے اور امریکہ میدان میں اترا تو باب المندب اورآبنائے ھرمز پر جنگ کا مرکز بنیں گے اور یہ ایک ایسا ٹریپ ہوگا ، جس سے نکلنا امریکہ کے لئے افغانستان سے نکلنے سے بھی زیادہ مشکل ہوجائے گا ۔ عسکری امور پر نظر رکھنے والے ارباب دانش کو توقع تھی کہ امریکی زیادہ سے زیادہ سے ایک ماہ میں اس دلدل میں ضرور اتر آئیں گے ،لیکن انہوں نے وقت لیا ، ایک مرحلہ پر ایسا دکھائی دینے لگا تھا کہ شائدوہ معاملہ سے دور رہیں گے ،لیکن پینٹا گان اور وائٹ ہائوس پر مسلط صہیونیوں نے انہیں بالآخر اس دلدل میں دھکیل کر ہی دم لیا ۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب امریکی وزیردفاع کے یوکرین میں مارے جانے کی افواہیں گرم ہیں اور امریکی اب تک اپنے وزیر دفاع کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہیں ، البتہ ایک جوابی افواہ ضرور اڑائی گئی ہے کہ وہ کینسر کا شکار ہے اور ہسپتال داخل ہے ، سچ بہت جلد سامنے ّآجائے گا ،لیکن یمن پرحملہ کرکے جنگ کے شعلوں کو بحیرہ احمر تک پھیلا دینے کا امریکی اقدام اب واپس نہیں ہوسکتا ، جس کا دوٹوک مطلب یہ ہے کہ امریکہ ایک ایسی تیسری عالمی جنگ چھیڑ چکا ہے ، جس کا انجام شائد اس کی توقع کے مطابق نہ ہو سکے ۔
امریکہ اور حوثی اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ نے 11جنوری کی صبح 2بجے یمن میں دارالحکومت صنعا، حدیدہ ، سعدہ، حجہ اور تعز کے 16مقامات پر 60سے 70حملے کئے جن میںکل 5حوثی شہید ہوئے ۔اس کے جواب میں چند گھنٹے کے اندراندر حوثیوں نے بحیرہ احمر میں یمنی حدود سے 90ناٹیکل مائیل کی دوری پر امریکی جہاز پر میزائل سے حملہ کیا اور اسے ڈبو دیا ، امریکی حملہ تسلیم کر رہے ہیں ، لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ جہاز ڈوبا نہیں البتہ ناکارہ ہوگیا ہے ۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ حوثی خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے امریکی مبازرت قبول کرتے ہوئے ، اسے میدان میں للکاراہے اور یہ جنگ اب طویل ہوگی ، وسیع ہوگی اور اس کے نتائج صرف مسلم دنیا نہیں مغربی دنیا کو بھگتنا پڑیں گے ، شائد مسلم دنیا سے زیادہ ۔
میدان جنگ کی صورتحال بڑی دلچسپ ہے ،اس حملے سے پہلے حوثی صرف ایرانی پراکسی کی حیثیت رکھتے تھے ، لیکن اس ایک لمحے نے انہیں امریکہ کا مدمقابل عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے اور فلسطین کی حمائت کرنے والے تمام ممالک میں اسے ایک فریق کے طور پر تسلیم شدہ حقیقت کا رنگ دے دیا ہے ۔ اب پوری دنیا سے امریکہ اور اسرائیل مخالف قوتیں ان کی پشت پر ہونگی اور امریکہ ایک بے چہرہ دشمن کے مقابلے میں الجھتا چلا جائے گا ۔ دوسری جانب روس نے اس حملے کی شدید مذمت کرکے اپنے کردار کی نشاندہی کردی ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ جنگ خلیج میں ہو رہی ہے اور امریکہ کو یہاں بحرین کے سوا کسی ملک کی حمائت حاصل نہیں ہے ۔ دوماہ کی تگ ودو کے باوجود امریکی اس خطے میں ایک بھی حمائتی حاصل نہیں کر سکے ۔ میدان جنگ کے اہم ترین پڑوسی سعودیوں نے بھی امریکہ کو ٹھینگا دکھادیا ہے ، سعودی وزیر خارجہ فرہان بن سعید نے یمن کے خلاف امریکی اتحاد کا ساتھ دینے سے انکار کرنے کا اعلان دسمبر کے تیسرے ہفتے بیجنگ میں کھڑے ہو کر کیا جہاں وہ ایران اور چین کے ساتھ سہہ فریقی مذاکرات میں شریک تھے ، اس اعلان کا وقت اور مقام اپنے اندر بہت سے راز چھپائے ہوئے ہے، جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ سعودی عرب 2015سے یمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے ، لیکن گزشتہ اڑھائی ماہ سے حوثیوں اور سعودیوں کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں ، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چین کی مداخلت سے سعودی ایران مصالحت کے بعد سے ہی امن بات چیت جاری ہے ، جو اب پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے، صرف اس کا اعلان باقی ہے ۔ سعودی عرب نے امریکہ اور عالمی برادری کی توقعات کے برکس حملے کے فوراً بعد اس کی مذمت اور تشویش کا اظہار کر دیا ہے ۔ یمن کے وار تھیٹر کا دوسرا اہم ترین پڑوسی ایران ہے ، جو ہمیشہ سے حوثیوں کاساتھی بلکہ مربی ہے ۔ پاکستان بھی ایک اہم فریق ہے لیکن پاکستان روز اول سے دو ٹوک الفاظ میں اس امریکی ایڈونچر ہی نہیں بلکہ بحیرہ احمر میں تعینات بین الاقوامی میری ٹائم کولیشن CTF-153 سے ہی لاتعلقی کا اعلان کر چکا ہے ۔ خطے کااہم ترین ملک عمان جو ماضی میں اہم امریکی اتحادی رہا ہے ، اس نے یمن پر حملہ کے دوران امریکہ اور اتحادیوں کو باقاعدہ وارننگ جاری کردی ہے کہ ”خبردار ہماری فضائی حدود سے کوئی میزائل یا طیارہ نہ گزرنے پائے ۔” وار تھیٹر کا جائزہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار امریکی اس میدان جنگ میں تنہا ہیں ، کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کا الزام لینے تک کوتیار نہیں ۔
حیرت ہوتی ہے اس بے شرم سابق بیوروکریٹ پرجس نے ساری عمر بلوچستان سے گزرتے عالمی سمگلنگ روٹ پر ڈیوٹی کرتے گزاری، اب اخیر عمر میں آقا دوعالم سیدنا محمد ۖ کی ذات مبارک کے حوالہ سے جھوٹ گھڑتے اور حدیث کے نام پر جعل سازی کرتے بھی اسے حیاء نہیں آتی۔ وہ کذب بیانی کی عادت سے مجبور ہوکر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے اور پاکستان کو امریکی حملے میں اتحادی ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے ۔ بے دماغ سیاسی زومبیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پذیرائی تو مل سکتی ہے ، لیکن حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ، جو درمیان میں آن ٹپکا۔ یمن کی یہ جنگ مستقبل میں کیارخ اختیار کرے گی ، اس کے نتائج کیا ہونگے ، اس پر اگلی قسط میں بات ہوگی ۔( جاری ہے )
عریضہ /سیف اللہ خالد