سرینگر(نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طورپر زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجی اورپیراملٹری اہلکار مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے قتل عام کے متعدد سانحات میں ملوث ہیں۔ان سانحات میں سے بیشتر جنوری کے مہینے میں رونما ہوئے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 1990کے بعد 8سال کے دوران بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں کے قتل عام کے 5بڑے سانحات میں سینکڑوں کشمیریوں کو شہید اور کروڑوں روپے مالیت کی املاک کو تباہ کیا۔
19جنوری 1991کو بھارتی پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے سرینگر کے علاقے مگرمل باغ میں 14بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا اور 33سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود متاثرہ خاندانوںکو آج تک انصاف نہیں مل سکا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ مگرمل باغ کی تلخ یادیں کشمیریوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ مگرمل باغ سمیت کشمیریوں کے قتل عام کے دیگر سانحات مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی مجرمانہ کارروائیوں کاواضح ثبوت ہیں۔
21جنوری 1990کو بھارتی فوجیوں نے سرینگر کے علاقے گائو کدل میں 50سے زائد شہریوں کوشہید کردیاتھا۔فوجیوں نے چند دن بعد 25 جنوری کو ہندواڑہ میں25کشمیریوں کو شہید کیا جبکہ 06جنوری 1993کو سوپور ٹائون میں 60شہریوں اور 27جنوری 1994کو کپواڑہ میں 27 کشمیریوں کو شہید کیاتھا۔کشمیریوں کے قتل عام ان سانحات کی یادیں آج بھی متاثرہ خاندانوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ 06جنوری 1993 کو بھارتی فوجیوں نے ضلع بارہمولہ کے قصبے سوپور میںآگ لگاکر 60 سے زائد شہریوں کو شہید اور350سے زائد دکانوں اور رہائشی مکانات کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔متاثرہ خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیں جبکہ اس گھنائونے جرم میں ملوث فوجی اہلکار آج بھی آزاد ہیں۔
21جنوری 1990 کو سرینگر کے علاقے گا ئوکدل میں بھارتی فوجیوں نے پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 50سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا جو ایک روز قبل فوجیوں کی طرف سے کشمیری خواتین کی آبروریزی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ 25جنوری 1990 کو ضلع کپواڑہ کے قصبے ہندواڑہ میں بھارتی فوجیوں نے کم سے کم 25 کشمیریوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیاتھا۔1994میں بھارت کے یوم جمہوریہ کے ایک دن بعد 27جنوری کو بھارتی فوجیوں نے کپواڑہ قصبے میں 27شہریوں کا شہید کردیاتھا۔ بھارتی فوجیوں نے 26جنوری کو ہڑتال کرنے پر لوگوںکو سزادینے کیلئے کپواڑہ میں خون کی ہولی کھیلی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 1990سے آج تک بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کے تقریبا 30 سانحات میں 634شہریوںکو شہید اور اربوں روپے مالیت کی املاک کوتباہ کیاگیا ۔
اس کے علاوہ نومبر 1947میں بھارتی فوج، ڈوگرہ مہاراجہ کی فورسز اور ہندوتوا فرقہ پرست قوتوں نے جموں میں 3 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیاتھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے قتل عام کا مقصد ان میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے۔رپورٹ میں حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈروں اور مودی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت کے وزرا کے بیانات اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور گروپوں بالخصوص جینوسائیڈ واچ کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت کی ہندوتوا حکومت مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کے قتل عام مزید سانحات کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔حال ہی میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی قابض انتظامیہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی اظہار، پرامن اجتماع اور دیگر بنیادی حقوق پر پابندیوں کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ بھارتی فورسز کی طرف سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات 2023میں بھی جاری رہے۔ واضح رہے کہ اگست 2019 کے دوسرے نصف میں نسل کشی کی روک تھام سے متعلق عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ نے بھارت کے لیے دو الرٹ جاری کیے تھے جن میں سے ایک مقبوضہ جموںوکشمیر جبکہ دوسرابھارتی ریاست آسام کے لیے تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے انتباہ میں کشمیریوں کی نسل کشی کے عمل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جینوسائیڈ واچ کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیں1990کے بعد سے کشمیریوں کے قتل عام کے کم سے کم 25سانحات رونما ہوئے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بی جے پی کی بھارتی حکومت نے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو مسلمانوںکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے ظلم و تشدد کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ رپورٹ میں عالمی برادری پر زور دیاگیا ہے کہ وہ قاتل بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی نسل کشی کو رکوانے کے لیے کردار ادا کرے ۔