بلوچستان کے شہر مچھ میں دہشت گردوں کا حملہ ایک بڑی واردات تھی ، جسے فورسز نے پوری قوت سے ناکام بنادیا،لیکن ابھی مکمل صفائی میں یقیناً وقت لے گا ، اس کے بعد شکست خوردہ درندوں کی جانب سے مزید خونریزی اور دیگر مقامات پر وارداتوں کے خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، ایک روز قبل سبی اور گزشتہ روز کوئٹہ ،تربت اور جعفرآباد میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ پاکستان دشمن عناصر نے لمبی منصوبہ بندی کے بعدایک خطرناک چال چلی تھی ، جسے اللہ رب العزت کی مدد کے ساتھ ناکام بنا دیا گیا ، تفصیلات کایہ موقع نہیں،واقفان حال ذمہ داران اس حملےکی ناکامی کو ملک کی ایک بڑی کامیابی قراردےرہےہیں، کسی بڑے‘‘ جانور ‘‘کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں ،اگر وہ ماراجاتا ہے یا پکڑا جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی،ازلی دشمن بھارت اوردہشت گردوں کےمعاون پڑوسی ملک میں پائی جانے والی تشویش اور بےچینی بتا رہی ہے کہ بہت بڑی’’ امیدیں ‘‘خاک میں ملی ہیں ، اور اگر یہ ہائی ویلیو ٹارگٹ مارا یا پکڑا گیا تو پاکستان کی بڑی فتح ہوگی ۔
کلیئرنس آپریشن دودن جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا ہے ، لیکن وطن کے بیٹے چوکس ہیں ، کونوں کھدروں اور بلوں میں چھپےناپاک کیڑےمکوڑوں کے نکلنے کے منتظر ہیں، اگر ضروری ہوا تو دھونی بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس آپریشن کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ مہہ رنگ بلوچ کے لاپتہ افراد، جن کے لواحقین پوسٹر پکڑے اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور امریکہ وبھارت کے راتب خور دانش فروش ریاست کو بدنام کرتے رہے، جذباتی ڈائیلاگ بولےجاتے تھے ، ’’ہمارے پیاروں کی لاشیں ہی لوٹا دو، قبروں کاپتہ دے دو ‘‘ ان میں سے جو مچھ پر حملہ کرنے ، معصوم بلوچوں کا خون بہانے آئے تھے ، ان کی لاشیں مچھ کے گلی کوچوں میں پڑی ہیں ،اس موقع پر مہ رنگ بلوچ ، سمی دین محمد اور مامے قدیراور اس کے بھانجے کے لئے یہ مشورہ بھی ناروا نہیں کہ لاپتہ افراد کی فہرستیں اپ ڈیٹ کرلیں ، ہم یقین دلاتے ہیں ، ان میں سے جو بھی سامنے آئے گا ، اس کی لاش ضرور ورثا تک پہنچے گی ، قبر جہاں مرضی بنا لیں ۔ مچھ شہر ، کول پورکمپلیکس اور دھادڑ کے علاقوں میں بکھری یہ لاشیں ، پاکستان کے تمام دشمنوں کے لئے واضح اور دو ٹوک پیغام ہے کہ آواران ایران ہو یا پاکستان کا کوئی بھی گلی کوچہ جو بھی اس ملک پر حملہ آور ہوگا ، اسی انجام سے دوچار ہوگا۔ یہ ہمارا وعدہ ہے ، پاکستانی قوم کا وعدہ ۔ سوال البتہ ان سب سے بنتا ہے ، جنہوں نے اپنے ضمیر ڈالروں کے عوض بیچے اور قلم گروی رکھے ، ان سے بھی جو انسانی حقوق کی آڑ میں فسادی و انتشاری خواتین کو مظلوم دکھا کر ملک دشمنوں کے ناپاک عزائم کو پورا کروانا چاہتے تھے، ان سے بھی جو میڈیا اور عدلیہ میں ان کے پشتیبان اور ہمنوا تھے کہ کیا اب بھی ان خواتین کے مقاصد پوشیدہ ہیں؟ کیااب مظلومیت کی آڑ میں ان کی دہشت گردی عیاں ہو نہیں گئی ؟ ان ڈالرخور عناصر میں سےکسی ایک کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ لاپتہ افراد کےڈرامے کی آڑ میں گلا پھاڑ کر ملک دشمنی کرنے پر قوم سے معافی مانگے یا کم ازکم اس دہشت گردی کی مذمت ہی کردے ، ان کی گہری چپ بتارہی ہے کہ شائد وہ ابھی تک ان مردودوں کے مارے جانے پرسکتے میں ہیں ، یا ناکامی کا سوگ منا رہے ہیں۔
کیا ضرورت ہے ہمیں دوست ،کسی دشمن کی ہم تو اپنوں کی عنایات جیے جاتے ہیں
اس میں اب کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ بی ایل اے کا دہشت گردانہ حملہ بھارتی دہشت گرد ایجنسی را نے کروایا ، یہی وجہ ہے کہ حملے سے پہلے ہی را سے منسلک سوشل میڈیا اکائونٹس متوقع حملے کے حوالہ سے مبارک بادیں دیتے اور اس کے بعد پل پل کی خبریں سناتے پائے گئے ؟ سوال البتہ یہ ہے کہ حملہ بھارتی حمائت یافتہ دہشت گردوں نے کیا ، اس پر سوشل میڈیا ٹرینڈ بھارتی ایجنسی را نے بنایا ، یہ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کیسے بن گیا ؟ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس ٹرینڈ کا تجزیہ کرلیں ، 80فیصد وہ اکائونٹ ملیں گے ، جو ہمیشہ ایک شخصیت پرست سیاسی عنصر کی ترجمانی کرتے اور اس کے ٹرینڈ کو بام عروج عطا کرتے پائے گئے ۔ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حب الوطنی پر شک کرنا درست نہیں ، اس سوال کا جواب نہیں مل رہا ہے کہ اس صریحاًملک دشمن اور دہشت گردوں کی حمائت پر مشتمل ٹرینڈ میں یہ سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا وارئیر کیا کر رہے تھےاور ان کی زبانیں بھارتی را کے سوشل میڈیا ہینڈلز سے بھی زیادہ غلاظت کیوں اگل رہی تھیں ۔ سمجھ تو اس بات کی بھی نہیں آرہی کہ یہ سیاسی جماعت کے بےدماغ کارکن ہیں ، جو آج دشمن کی زبان بول کر خود کو بے نقاب کر رہے ہیں ، یا یہ بھارتی را کی سوشل میڈیا فورس ہےجو پاکستان میں آگ لگانے اور انتشار پھیلانے کی خاطر ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔ کاش کہ ایسا ہی ہو ، کیونکہ کوئی سیاسی کارکن کسی قیمت بھی وطن سے غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا ، لیکن ہماری خواہش سے کیاہوتا ہے ،ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک کارکن کم ازکم ملک دشمن عناصر کی ہفوات کا شکار نہ ہوتے۔ ان بےبصیرت مفاد پرستوں کی ایسی حرکتوں پر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘ ایسے لوگوں کےہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔
دوستو! اب ہمیں دشمن کی ضرورت کیا ہے
ایسے رہبر ہیں تو رہزن کی ضرورت کیا ہے
اب تو اندھوں کو نظر آتے ہیں، آتے خطرات
بند کانوں کو بھی ہیں چاپ سناتے خطرات
ایسے عالم میں کھلے آنکھ نہ ہوں کان کھڑے
ہونگے دنیا میں کہیں ہم سے بھی نادان بڑے
کووں اور چیلوں کو گلشن کی ضرورت کیا ہے
ان کو خوشبووں کے مخزن کی ضرورت کیا ہے
عریضہ / سیف اللہ خالد