عبدالقدوس/قلم کہانی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے آج کل سیاست و حکومت کا یہ انداز اپنا لیا ہے کہ ’’گنگا گئے تو گنگا رام ، جمنا گئے تو جمنا داس‘‘… وہ اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں کرتے ہیں تو لب و لہجہ کچھ اور ہوتا ہے اور پی ٹی آئی کارکنوں کے سامنے گفتگو یا خطاب فرمائیں تو انداز گفتگو حیران کن طور پر بالکل ہی بدل جاتا ہے ۔ سوات جلسے میں اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کو مخاطب کر کے دی گئی تازہ ترین گیدڑ بھبکیوں کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے یہ دھمکی دی ہے کہ آئین توڑنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا ، ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ چند روز قبل وہ جن شخصیات اور اداروں سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے تھے سوات جلسے میں انہیں پھانسی پر لٹکانے کی دھمکیاں دیتے پائے گئے ، گنڈا پور کی ان دھمکیوں سے ٹارگٹ کئے گئے اداروں اور شخصیات کے کانوں پر جوں رینگے یا نہ رینگے ، یہ البتہ ضرور واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کشکول میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مذاکرات کی مطلوبہ بھیک نہیں ڈالی گئی ، اسی لئے وزیر اعلیٰ کا لب و لہجہ اتنا تلخ ہو گیا ، عرف عام میں ایسی صورتحال کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بھی قرار دیا جاتا ہے ۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں اسٹیبلشمنٹ اور ادارے عملی طور پر بے پناہ طاقت و اختیارات کے مالک ہوں انہیں کسی بے بس سے وزیراعلیٰ کی طرف سے تختہ دار پر چڑھانے کی دھمکیاں دینا بڑا عجیب لگتا ہے ، اس پر زیادہ بہتر تبصرہ یہ ہے کہ ’’ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیریاں نوں جپھے ۔‘‘ ایک دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ گنڈاپور کا کپتان بھی گرگٹ کی طرح اسی تیزی سے رنگ بدلنے کا ماہر ہے اور اب خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی یہی وطیرہ اپنا لیا ہے ، ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ شائد گنڈا پور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ گالم گلوچ ، دھمکیوں اور مزاحمت کے اس راستے پر نہ چلے تو اپنی مقبولیت یا وزارت اعلیٰ کھو دیں گے،یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود کو اپنی جماعت کی سوشل میڈیا ٹرولنگ کے سامنے غیر محفوظ سمجھتے ہوں ۔ سوات میں پی ٹی آئی کا جلسہ مجموعی طور پر روایتی تقریروں،دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں سے آگے نہ بڑھ سکا ،یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اب نہ کوئی روڈ میپ ہے اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی بیانیہ باقی بچا ہے،اس لئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت کم و بیش تمام رہنمائوں کی تقاریر کے فقرے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لگ رہے تھے ،جلسے کے دوران شرکاء کی تعداد بھی اتنی متاثر کن نہیں تھی،سوات جلسے میں مراد سعید کی متوقع آمد کی افواہ پھیلانے کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو،نہ مراد سعید آئے اور نہ انہیں دیکھنے کے لئے لوگوں کا کوئی بہت بڑا جم غفیر جمع ہو سکا ، سیدھے سادے الفاظ میں یہ ایک درمیانے درجے کا جلسہ تھا ۔ سوات میں بڑا جلسہ عام منعقد کرنے میں ناکامی سے ایک بات تو بہرحال ثابت ہو گئی ہے کہ وہ دن گئے کہ جب خلیل میاں فاختا اڑایا کرتے تھے ، اب لوگ اس دیوانہ وار انداز میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں نہیں آ رہے جس طرح کچھ برسوں قبل تک لوگ بے ساختہ کھچے چلے آتے تھے ۔ پی ٹی آئی اگر ایک بار پھر اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بیانیئے کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ، شیخ چلی والے خیالی پلا اور مولا جٹ جیسی بڑھکیں اب لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتیں ۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کو سیاسی حوالے سے بہت پختہ ذہنی سوچ کا حامل بنا دیا ہے ، وہ زمینی حقائق سے بالکل ہٹ کر کیئے گئے دعوئوں سے اب متاثر نہیں ہوتے ۔ پی ٹی آئی قیادت اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو چاہیئے کہ وہ اتنے ہی دعوے کریں اور اسی قدر بڑھکیں ماریں کہ جن پر عمل کسی حد تک ممکن بھی دکھائی دے ۔ پرانے برانڈ کا روایتی چورن اب بکنے والا نہیں ۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی اپنی حالت آج کل گائوں کے اس غنڈے اور بدمعاش جیسی ہے کہ جو چوک چوراہے میں کھڑا ہو کر تو گالیاں بکتا اور دھمکیاں دیتا ہے لیکن پھر فوراً ہی کسی پتلی گلی کی نکڑ پر کھڑا ہو کر انہی لوگوں کے پائوں پڑ کر معافی مانگ لیتا ہے جنہیں چوک چوراہے میں قبل ازیں وہ دھمکیاں دے رہا تھا ۔ حالیہ چند ماہ کے دوران ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں اور ٹاپ لیول کی ملاقاتوں اور افطاریوں میں اچھا بچہ بن کر شریک ہونے والا وزیر اعلیٰ گنڈاپور پی ٹی آئی کارکنوں کے سامنے آتے ہی کسی آتش فشاں کی طرح لاوا اگلنے لگتا ہے،سمجھ نہیں اتی کہ وہ پی ٹی آئی کارکنوں کو دھوکہ دے رہا ہے یا اپنے آپ کو ، اور یا پھر اپنے کپتان کو ’’ماموں‘‘بنانے کے چکر میں ہے ۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹرولنگ سے بچنے کے لئے گنڈاپور کو یہ ناٹک بہ امر مجبوری رچانا پڑ رہا ہو ۔ وجہ کچھ بھی ہو ، یہ فارمولا اب آئوٹ آف ڈیٹڈ ہو چکا ہے اور لوگ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے والوں کے کردار و عمل سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، مثل مشہور ہے کہ چوہے کو کہیں سے ہلدی کی ڈلی مل گئی اور وہ پنساری بن بیٹھا ، تیسری دنیا کی کنٹرولڈ ڈیمو کریسی میں ایک چھوٹے صوبے کی وزارت اعلیٰ ہلدی کی ڈلی ہی تو ہے لیکن گنڈا پور خود کو حقیقی معنوں میں بڑا ’’پنساری‘‘ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔