جمعرات‬‮   21   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

تجارتی راہداریوں کی جنگ اور جنرل عاصم منیر–1

       
مناظر: 221 | 12 Jun 2024  

عبدالقدوس ۔۔۔ قلم کہانی

پاکستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہے اس میں 10 عالمی تجارتی راہداریوں کے ایک بڑے حصے کو فل فنکشنل ہونے سے روکنے کی طویل پراکسی وارز جاری ہیں اور سی پیک کو ان تمام 10 راہداریوں کی ’’سرتاج راہداری‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جس روز سی پیک ’’ فل فنکشنل‘‘ ہوگیا ، نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی قسمت بدل جائے گی ، یہی غیر معمولی اہمیت سی پیک کے خلاف دنیا کی سب سے خوفناک پراکسی وار شروع ہونے کا باعث بنی ہوئی ہے کہ جس میں ایک طرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیاں اپنی انتہا کو چھو رہی ہیں تو دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی منافقانہ چالیں اور مسلسل تخریب کاری مسئلہ بنی ہوئی ہے ، اس دو طرفہ پراکسی وار کا افسوسناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سی پیک کا فیز 1 مکمل ہو گیا ہے ، فیز 2 شروع ہونے جا رہا ہے اور 12 سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے لیکن ابھی تک نہ صرف سی پیک کا روڈ لنک مکمل نہیں ہو سکا بلکہ ریلوے لنک پر کام کا آغاز تک نہیں ہونے دیا گیا ۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان 12 برسوں میں دونوں دیرینہ دوست ممالک کے درمیان سی پیک کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف کے چین کے حالیہ دورے پر ان غلط فہمیوں کی پرچھائیاں اتنی گہری تھیں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اس دوران غیر رسمی سرپرائز وزٹ کر کے باتھ بٹانا پڑا یا یوں کہیں کہ گارنٹر بن کر یہ یقین دہانیاں کروانا پڑیں کہ سویلین حکومتوں کی ذاتی دلچسپیوں اور سیاسی کشمکش کو آئندہ سی پیک پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا ، ہماری دعا ہے کہ پاک فوج اور ریاست پاکستان نے جس مثبت جذبے سے یہ نئی یقین دہانیاں کروائی ہیں اور گارنٹیاں دی ہیں ، ہماری سیاسی جماعتیں اس کی قدر کریں اور قومی اہمیت کے اس پراجیکٹ کو آپس کی مخالفت برائے مخالفت کی بھینٹ نہ چڑھائیں ۔ پاک فوج اور ریاست پاکستان کی طرف سے ایسی ہی گارنٹی ساڑھے 4 سال قبل بھی دی گئی تھی کہ جب اس وقت کے وزیراعظم اور آرمی چیف اکھٹے چین کے دورے پر گئے تھے ، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 8 اکتوبر 2019 ء کو اکھٹے چین کے دورے پر پہنچے اور اس دوران یہ فیصلہ ہوا کہ سی پیک کو بار بار سیاسی چپقلش کی دلدل میں دھنسنے سے بچانے کیلئے اس کی خودمختار اتھارٹی کو پاک فوج کی براہ راست نگرانی میں دیدیا جائے کہ جس طرح آج کل ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت سمیت مختلف کلیدی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا معاملہ افواجِ پاکستان اور آرمی چیف کی براہ راست نگرانی میں دیدیا گیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 8 اکتوبر 2019 ء کو دورہ چین پر جانے سے قبل خودمختار سی پیک اتھارٹی کو ایک آرڈیننس کے تحت قائم کیا گیا تھا ، اور سدرن کمانڈ کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو دورہ چین سے واپسی کے کم و بیش ڈیڑھ ماہ بعد 27 نومبر 2019 ء کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا ۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ نے بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی 1 سال ، 8 ماہ اور 6 روز یعنی 616 روز اپنے فرائض انجام دیئے اور سیاسی مخالف کی بنیاد پر ایک ذاتی کردار کشی والی مخالفانہ مہم شروع ہونے کے بعد اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ، اس افسوسناک واقعے کے بعد سی پیک ایک بار پھر سول کنٹرول میں آ گیا کیونکہ اتھارٹی کے نئے چیئرمین غیر فوجی تھے ، اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ جب عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر پی ڈی ایم کی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس نے آتے ہی سی پیک اتھارٹی کو ہی ختم کر دیا ۔
سی پیک سے جڑی یہ افسوسناک یادیں وزیراعظم شہباز شریف کے چین کے دورے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ تھیں ، اس لئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ’’ریسکیو 1122 ‘‘ بن کر معاملے کو سنبھالا اور سی پیک کے تحت 23 ایم او یوز سائن ہونے کے ساتھ ساتھ 2 سب سے اہم منصوبوں روڈ لنک اور ریلوے لنک کی تیز رفتار تعمیر پر اتفاق رائے اور یقین دہانیوں کا دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ نے ’’آئرن برادرز‘‘کی حیثیت سے ازسر نو اعادہ کیا ۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان اہم ملاقات پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کے بیجنگ دورے کے اختتام پر ہوئی‘ رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کو چین کے صدر شی جن پنگ سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر میں وزیراعظم شہباز شریف بھی دونوں کے درمیان موجود ہیں ، آرمی چیف کا یہ سرپرائز وزٹ چونکہ غیر رسمی دورہ تھا ، اس لئے وہ سویلین لباس میں نظر آ رہے تھے اور ان کی چین کے صدر کے ساتھ ملاقات کی باضابطہ خبر بھی جاری نہیں کی گئی ، پاکستان کے بڑے اردو اور انگریزی اخبارات نے یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل تصویر کا حوالہ دے کر ہی شائع کی ۔ چین کا یہ اہم ترین دورہ کرنے والے پاکستانی وفد میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت وزیر اعظم شہباز شریف ، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور دیگر اہم حکومتی و بزنس مین شخصیات شامل تھیں ۔
دونوں ممالک نے 23مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے جن میں ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر، صنعت، توانائی، زراعت، میڈیا، صحت ، پانی کا انتظام، سماجی اقتصادی ترقی اور دیگر باہمی دلچسپی کے شعبے شامل تھے ۔ سی پیک کے تحت ایم ایل ون یعنی کراچی لاہور پشاور ریلوے لائن کی چھ ارب 70کروڑ ڈالر میں ازسر نو تعمیر کے ساتھ ساتھ روڈ لنک کو سارا سال فنکشنل رکھنے کیلئے قراقرم ہائی وے کے رائے کوٹ سے تھا کوٹ سیکشن کی تعمیر نو اور خنجراب سوست پاس کے ڈھانچے کی اپ گریڈیشن پر بھی الحمدللہ اتفاق ہو گیا ہے ۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے دورہ چین کی مزید تفصیل میں جانے سے پہلے تھوڑا ذکر ہو جائے ہمارے خطے کے ان تمام 10 اکنامک کوریڈورز کا ، کہ جن میں سے کچھ کیخلاف سی پیک کی طرح مختلف حوالوں سے پراکسی وارز بھی جاری ہیں اور کچھ مکمل فنکشنل ہیں اور ان کی وجہ سے متعلقہ خطوں میں غربت کا خاتمہ ہو رہا ہے اور خوشحالی آ رہی ہے ۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات کی وجہ سے برما ، آذر بائیجان اور آرمینیا نے اپنے اپنے اکنامک کوریڈ ورز کا مستقبل روشن اور محفوظ بنانے کیلئے ریاستی سطح پر ’’اسٹریٹجک کروٹیں‘‘ بھی لی ہیں جس سے یہ حقیقت ازہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ریاست کا مفاد عالمی سطح کی دوستیوں اور دشمنیوں پر مقدم ہے ، امید ہے ریاست پاکستان بھی سی پیک کے حوالے سے دلیرانہ فیصلے کرتے ہوئے برما ، آذربائیجان اور آرمینیا کے حالیہ چند برسوں کے اسٹریٹجک فیصلوں سے رہنمائی حاصل کرے گی ۔(جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0