سیف اللہ خالد/عریضہ
گزشتہ سے پیوستہ)۔)
کابل میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے افغان طالبان کی مرضی کے خلاف براہ راست ٹی ٹی پی سے تعلقات قائم کئے ، اور ان سے مذاکرات شروع کردئیے ،آن دی ریکارڈ ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے اس پر اعتراض کیا گیا ۔ پاکستان کے اندر سے بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ’’ ان دہشت گردوں کو ہینڈل کرنے کی ذمہ داری اب افغان طالبان کی ہے ، ان سے بات کی جائے‘‘ ، لیکن جواب میں کہا گیا کہ ’’یہ ہمارے لوگ ہیں ، ہم ان سے ڈیل کرلیں گے۔‘‘ اب جب پاکستان کا کوئی بھی ذمہ دار افغان طالبان سے بات کرتا ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’یہ آپ کے اپنے لوگ ہیں ڈیل کرلیں ۔‘‘ انہی مذاکرات کی آڑ میں کم ازکم 5سے6ہزار دہشت گردوں کو بغیر کسی ضمانت اور قانونی بندوبست کے پاکستان منتقل کیا گیا، خوست اور کنہڑ میں دفاتر کھولے گئے جہاں رجسٹریشن کی جاتی اور دہشت گردوں کو بلا کسی روک ٹوک کے پاکستان میں آباد ہونے کا پروانہ فراہم کردیا جاتا۔یہاں تک کہ بعض کو مالی معاونت تک فراہم کی گئی ۔اس وقت کی حکومت کویہ تجاویز بھی دی گئی تھیں کہ جن دہشت گردوں کو واپس لا رہے ہیں ، ان کی نگرانی کے لئے ان کے نام فورتھ شیڈیول میں ڈالیں یا قبائلی ضمانت لیں ، لیکن ہوا کے گھوڑے پر سوار بے بصیر ت حکمرانوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور ملک کو ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ میںجھونک ڈالا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ نومبر 2021میں پاکستانی جیلوں میں بند ایک سو ایسے دہشت گردوں کو محض ٹی ٹی پی سے خیر سگالی کی خاطر رہا کردیا گیا ، جو پاکستانیوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث تھے اور فورسز کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر انہیں گرفتار کیا تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر عارف علوی نے پاکستان کے دشمن اورعوام کے قاتل ان دہشت گردوں کو معافی دی اور رہا کردیا گیا ۔ آن دی ریکارڈ ہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومت دونوں کا موقف تھا کہ ان دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ ٹی ٹی پی نے نہیں کیا ، بلکہ حکومت نے محض خیر سگالی کے لئے انہیں رہا کیا ۔ ان لوگوں میں کون کون شامل تھا؟اس کا اندازہ اس سے لگالیں کہ سواتیوں کا قاتل امریکی شہری مسلم خان، محمود خان اور اقبال خان بھی ان میں شامل تھے۔یہ اقبال خان ابھی چند روز قبل توہین قرآن کے نام پر ہونے والے ہنگامے میں بھی پیش پیش رہا، غالباً اقبال خان جیسوں کی محبت کا اثر ہے کہ پی ٹی آئی نے سوات واقعہ کے خلاف سینیٹ کی قرار داد پر دستخط نہیں کئے ۔ دہشت گردوں کی رہائی کوئی الزام نہیںحقیقت ہے ۔ 22نومبر2021کو ایک بڑے انگریزی جریدے نے یہ خبر شائع کی اور آج تک اس کی تردید سامنے نہیں آئی ۔
اسی دوران جب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوگئی تو منافقت ملاحظہ فرمائیں کہ وفاقی کابینہ میں بیٹھ کر ان فیصلوں میں شریک رہنے والے’’سواتی منڈے‘‘ نےنیا حربہ اختیار کیا اور سوات میں جلسےجلوس کرکے دہشت گردوں کی آمد کا الزام عسکری اداروں کے سر ڈالنا شروع کردیا ، عین انہی ایام میں اس وقت کی خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان جناب بیرسٹرسیف کے بیانات میڈیا میں شائع ہوئےکہ ’’یہ دہشت گرد نہیں ،ٹی ٹی پی کے اچھے لوگ ہیں ، بھتے کی کالیں ،اور ٹارگٹ کلنگ یہ نہیں کر رہے ۔‘‘ سوات میں ایک دہشت گرد کمانڈر کی نقل وحرکت میڈیا میں رپورٹ ہوئی تو وضاحت آئی کہ ’’کمانڈر کی بہن بیمار تھی ، اسے عیادت کے لئے آنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘‘ کمال نہیں ہوگیا … جن بے گناہوں کے قتل عام میں یہ لوگ ملوث رہے ، ان کے کوئی بھائی بہن نہیں تھے؟ یہ اس قدر محترم ہوگئے کہ انہیں عیادتوں کے لئے بلایا جاتا رہا ۔ ان دنوں یہ سمجھنا مشکل ہوگیا تھا کہ جناب بیرسٹر حکومت کے ترجمان ہیں یا ٹی ٹی پی کے ۔اگر کسی کو شک ہو تونومبر 2021 سے اگست2022 تک کے اخبارات کھنگال لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا اور پوری طرح سے سمجھ آجائے گی کہ دہشت گردوں کا سہولت کار کون بنا ؟ انہیں پاکستان کون واپس لایا ؟ اور اب دہشت گردی کیوں پھر سے عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ خواجہ آصف نے درست کہا ہے کہ ’’جو پانچ چھ ہزار دہشت گرد لا کر بسائے گئے تھے، ان کے گھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں ، سرحد پار سے آنے والے انہی گھروں میںقیام کرتے ہیں۔‘‘
سوال کیا جارہا ہے کہ ’’ تین بڑے آپریشن کرنے کے باوجود دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوئی اور اب ایک اور آپریشن کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ ‘‘ سوال اہم ہے ، اس کا جواب حکومت کے ذمے ہے ، اسے پوری وضاحت اور ثبوتوں کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہئے اور جو لوگ ان دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ، انہیں واپس لائے ، ان کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات قائم کرکے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ ’’ وہ پاکستان دشمن دہشت گردوں کے سہولت کار کیوں بنے ؟ انہیں واپس لے کر کیوں آئے ؟‘‘سوال تو یہ بھی پوچھا جانا چاہئے جو قومی اسمبلی سے لے کر میڈیا تک اس آپریشن کے خلاف شورمچارہے ہیں کہ ’’ ان کا کیامفاد ہے کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں ؟‘‘ سوال تو اے این پی سے بھی بنتا ہے کہ آج تک وہ طالبان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ، ان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتی رہی ہے ، اب اچانک کیا تبدیلی آگئی کہ اے این پی کو ٹی ٹی پی سے ہمدردی ہوگئی اور وہ اس کے خلاف آپریشن کی مخالت کرنے لگی ہے ۔ ناقابل فہم رویہ تو مولانا کا ہے ، جن کی ذات اورجماعت سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنائی گئی ، جنہیں انہی دہشت گردوں نے کھل کر الیکشن مہم تک نہیں چلانے دی ، جو خود 2021اور 2022میں دہشت گردوں کو پاکستان میں واپس لا کر بسانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں ، اب اچانک ان سے ہمدردی کیسے ہوگئی؟ سہولت کاروں کا خوف تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر بات کھلی ، تحقیقات ہوئیں تو ماضی میں دہشت گردوں پر نوازشات کا بھید بھی کھل جائےگا ، مولانا اور اے این پی کا مسئلہ ناقابل فہم ہے ، کیا محض رد عمل اور حکومت سے سیاسی اختلاف میں اس حد تک جایا جا سکتا ہے کہ اپنی ذات اور ملک کے دشمنوں کی حمائت کردی جائے ؟
ایک بات طے ہے کہ وہ دہشت گرد جن کے منہ کو امریکی ڈالر لگ چکے ہیں ، جو دہشت گردی کو اپنی معیشت بنائے ہوئے ہیں ، کسی طرح کے مذاکرات اور بات چیت نہیں ایک بے رحم آپریشن ہی ان کا حل ہے ، وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ عوام کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو ، لیکن سا زشیوں کا پروپیگنڈہ ناکام بنانے کی خاطر لازم ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس اور میڈیا میں وہ تمام حقائق سامنے لائے جائیں ، قوم کو بتایا جائے کہ پشتون شہریوں کو ورغلاکر ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر وہی مجرم ہیں ، جو پشتون پاکستانیوں کے قاتلوں کے سہولت کار بنے اور انہیں واپس لے کرآئے اب اپنا راز کھلنے کے ڈر سے آتش زیرپا ہیں ۔
آپریشن عزم استحکام کی ضرورت کیوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2
مناظر: 772 | 28 Jun 2024