سیف اللہ خالد /عریضہ
بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے ، بلکہ آچکی ہے۔امریکہ سے آزادی کی جنگ کے پردے میں امریکہ کی غلامی کی جدوجہد پر اگر کوئی پردہ تھا بھی، تو اب نہیں رہا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے خلاف قومی اسمبلی کی قرار داد بھی انتشار پسندوں کو برداشت نہیں ہوئی ۔ امریکہ سے وفاداری کی حد یہ کہ قرار داد پیش ہوتے ہی وفادار پروکسی کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے، سائفر سائفر اور شیم شیم کے نعرے لگائے، قرارداد کا مسودہ اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اچھال دیں۔ قومی اسمبلی میں جو ہوا یہ غیر متوقع نہیں تھا ، پی ٹی آئی کے بر سبیل تذکرہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان ایک دن پہلے ہی امریکہ سے وفاداری کا اعلان کر چکے تھے، جب قومی اسمبلی کے باہر انہوں نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ’’ ہم امریکہ کے خلاف قرارداد کی شدید مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ لوکل پاکستانی جو امریکی شہری ہیں انہوں نے اگرکوئی قرارداد دی ہے تو یہ پارٹی کنٹریبیوشن نہیں ان کا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی نے پی ٹی آئی کو امریکی قرار داد کے حوالہ سے باقاعدہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا ، لیکن تردید کی آڑ میں ان کا اقبالی بیان چور کی داڑھی میں تنکے والی بات ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی اس معاملے سے پارٹی کا کچھ لینا دینا نہیں تو امریکہ کے خلاف قرار داد کی مخالفت چہ معنی ؟ انتشاری گروہ کا یہ طریقہ واردات ہے کہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جو واردات کر رہے ہوتے ہیں ، اس کا الزام پہلے سے ہی مخالفین پرلگانا شروع کردیتے ہیں ، پکڑے جائیں تو صاف مکرجاتے ہیں کہ ’’ہم نے نہیں ہمارے کارکنوں نے کردیا ہوگا ۔‘ ‘ ابھی پچھلے دنوں سقوط ڈھاکہ پر کلٹ کے بانی کے آفیشیل اکائونٹ سے ملک دشمنی پر مشتمل بیانیہ سامنے آیا تو بھی موصوف نے کہا ’’ مجھے تو علم ہی نہیں ‘‘ یعنی پوری قوم کو کلٹ کارکن ہی سمجھ رکھا ہے ، پھر کہا ’’ہمارا سوشل میڈیا امریکہ سے آپریٹ ہو رہا ہے ، انہوں نے کردیا ہوگا ۔ ‘‘سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ ’’امریکی کانگریس غزہ کیلئے نہیں بول رہی،جہاں انسانیت سسک رہی ہے ، بچے مر رہے ہیں، دنیا چیخ رہی ہے ، عرب امریکی ہی نہیں مسیحی اور یہودی امریکی امن پسند لابیز بھی پورا زور لگا چکی ہیں ، امریکی یونیورسٹیز تک میں مسلسل احتجاج بپا ہے لیکن ارکان کانگریس کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی ، پاکستانی امریکیوں میں ایسا کیا ہے کہ ان کے لئے امریکی کانگریس تڑپ اٹھی ہے ۔‘‘ حیرت انگیز نہیں کہ انتشاری گروہ امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام حکومت پر لگارہا تھا ، اب حکومت امریکہ کے خلاف قرار داد لارہی ہے تو یہ اس کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں ، ویسے پروکسی اور کسے کہتے ہیں ؟
ملک دشمنی اور غداری کا الزام بہت سنگین ہے ، سیاست میں اس کا استعمال کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ، اصولی پور پر یہ حق صرف عدالت کا ہونا چاہئے ۔ سوال البتہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلسل ملک کے خلادف مورچہ زن ہو تو اسے کیا کہا جائے ؟ اگر کوئی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ملکی مفاد پر حملہ آور ہو اور اپنی اس خصلت سے باز نہ آئے تو اسے کیا نام دیا جائے ؟ کسے نہیں معلوم کہ مخصوص مقاصد کی خاطر امریکی اداروں اور آئی ایم ایف کی خواہش تھی کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کے گھاٹ اتار دیا جائے، ادھر انتشاری بھونپو صرف ڈیفالٹ ڈیفالٹ کا ریکارڈ ہی نہیں الاپنےلگے بلکہ آئی ایم ایف کو خط تک لکھے گئے کہ وہ پاکستان کو قرض نہ دے۔ سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی سے لے کردنیا بھر میں لابنگ تک کونسا حربہ ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا ، حدتو یہ کہ 9مئی کو ملک کے خلاف جو بغاوت کی گئی ،اسے دیکھ کر تو دشمن بھی ششدر رہ گیا ۔پرانی باتیں چھوڑ بھی دی جائیں تو موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد مارچ 2024 امریکی ایوان کانگریس کے 31 اراکین سے امریکی صدر کو خط لکھوایا گیا کہ وہ پاکستانی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔اب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہو یا امریکہ کے خلاف قرار داد پی ٹی آئی دونوں کے خلاف کھل کر میدان میں آچکی ہے ، امریکہ اور دہشت گردوں سے دوستی پر کیا کہا جائے ، کیا نام دیا جائے ؟ صرف ایک لفظ سمجھ میں آتا ہے ’’پروکسی ۔‘‘
خان غفار خان کی اولاد سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، وہ رہے گا ، لیکن سیاست میں اس خاندان نے ہمیشہ مثبت روایات کو فروغ دیا ہے ، اب اس خاندان اور پارٹی کی قیادت غفار خان کے پڑپوتے ، ولی خان کے پوتے اور اسفند ولی کے صاحبزادے ایمل ولی کے ہاتھوں میں ہے ، ٹی ٹی پی کے خلاف مجوزہ آپریشن کی اے این پی جانب سے مخالفت بھی ناقابل فہم ہے کہ ٹی ٹی پی نے اس خاندان اور پارٹی کو شدید نقصان پہنچایالیکن ایمل ولی کی جانب سے پی ٹی آئی پر سنگین اور سنجیدہ الزام سامنے آیا ہے ، جس پر پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کو جواب ہی نہیں دینا چاہئے اگر یہ غلط ہے تو اس کا ثبوت بھی فراہم کرنا چاہئے ۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمل ولی کے الزامات کو سنجیدہ لے اور اس پر تحقیقات کروائے ، تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا گٹھ جوڑ ختم کیا جاسکے ،اگر یہ الزام غلط ہے تو اس کی وضاحت ہو سکے ۔اپنے ایک انٹرویو میں ایمل ولی نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’طالبان(ٹی ٹی پی ) اور پی ٹی آئی ایک ہیں ، ایک ہی سکے کے دو رخ ، انہوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ پورا سپورٹ کیا ہے ۔2013 میںپی ٹی آئی کی حکومت پختونخواہ میں آئی تو طالبان(ٹی ٹی پی ) کی سپورٹ سے آئی ،اس دفعہ بھی ان کی حکومت پختونخواہ میں آئی ہے تو طالبان(ٹی ٹی پی ) کی سپورٹ سے آئی ہے ۔‘‘ آپریشن کی مخالفت کے حوالہ سے انہوں نے وضاحت کی کہ’’ ہم صرف یہ چاہتے ہیں سنجیدگی اختیار کی جائے،ماضی میں ہم نے قربانیاں دی ہیں ، امن کی خاطر اب بھی قربانیاںدیں گے ، ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ سنجیدگی سے کام کریں ، دہشت گردوں کو مکمل ختم کریں گوڈ اور بیڈ کی تقسیم کو ختم کریں ۔ ‘‘ اس موقف کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کی اعتماد میں لینے کی سنجیدہ کوشش سے اے این پی کی مخالفت حمائت میں بدل سکتی ہے ، لیکن پی ٹی آئی کا معاملہ مختلف ہے ، پروکسی کو جب تک’’ ماسٹرز ‘‘کی ہدات نہیں آئے گی ، وہ اپنی ڈفلی بجاتی رہے گی ۔ یہ الگ بات کہ جس بات پر یہ پروکسی شور مچارہی ہے ، وہ اس آپریشن میں شامل ہی نہیں ، یعنی آبادیوں کا انخلاء یا بڑے پیمانے پر ملٹری ایکشن ، یہ آپریشن صرف دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشنز ، سرحدوں کے پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی ، عالمی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف سفارتی دبائو اور دہشت گردوں کو ملک کے نظام عدم سے دستیاب حمائت ختم کرنے کی خاطر قانون سازی تک محدود ہے ۔مطلب یہاں بھی سازش ۔۔ جو چیز آپریشن کے حیطہ کار میں نہیں ، اس پر شور مچایا جا رہا ہے ۔وہ کیا کہا تھا ، فیض نے کہ :
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
فیض سے یاد آیا ، یہ پوری غزل ہی کمال ہے ۔ بے محل ہی سہی ، لیکن ہرج کیا ہے ؟
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن میں غارتِ گل چیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے