سیف اللہ خالد /عریضہ
کشمیر کبھی پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں اتحاد واتفاق کی علامت تھا ، اک جذبہ تھا جو قوم کی رگوں میں خون کی مثل دوڑتا تھا ، مگر پھر اس ملک کو کسی بد بخت کی نظر کھا گئی یا شائد ہنود ویہود کا کوئی ہمزادآسیب تھا ، جس نے قومی زندگی کو یوں تہہ وبالا کرکے رکھ دیا کہ قومی مفادات سے لے کر قومی موقف تک ارزاں ہو کر رہ گئے ، شخصی اخلاقیات سے قومی روایات تک کا جنازہ نکال دیا گیا۔ عالمی صہیونی تھنک ٹینکس کے ان پٹ سے قومی نفسیات کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا گیا کہ نوجوان نسل سامری کے بچھڑے کی پوجا کی طرح شخصیت پرستی کی دلدل میں یوں اترتی چلی گئی کہ مودی کے کشمیر دشمن اقدامات کی مزاحمت کی توہین کرنے پر بھی کسی کو سمجھ نہ آئی کہ ابھی چندماہ قبل تو یہی کردار امریکہ میں کشمیر فروشی کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے سے تشبیہ دے چکا ہے۔کسی نے نہیں پوچھا کہ قوم کی زندگی وموت کے مسئلہ کو بازیچہ اطفال کیوں بنا رہے ہو؟ ہم جیسوں نے سوال اٹھایا بھی تو واہ واہ کے ڈوگرے برساتے ڈھور ڈنگروں کے بے ہنگم شور کے سبب نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر رہ گیا ۔
کامل 6برس ہونے کو آئے ہیں کہ کشمیر کا نام اجنبی بنتا جا رہا ہے ، بے حمیتی کا یہ عالم کہ کشمیریوں کی بے بسی ، بے کسی اور بے چارگی کا ذکرتک معدوم ہو چکا ، میڈیا تو رہا ایک جانب کہ الیکٹرانک میڈیا پاکستان کے بجائے اغیار کے ایجنڈے کا مناد ہے اور سوشل میڈیا عالمی سامری کے’’ دیسی بچھڑے ‘‘کا پجاری ، کشمیر کے نام پر کروڑوں کے چندے اکٹھے کرنے والی جماعتیں اور اقتدار اعلیٰ کے مزے لوٹنے والے سیاستدان بھی منقار زیر پر ہیں ، شائد کہ عالمی ایجنڈے کے خلاف زبان کھولنے کا یارا نہیں ۔حد تو یہ کہ 13 جولائی کے یوم شہدا ء کشمیر پر بھی خاموشی ہے ،حالانکہ13جولائی 1931 وہ دن ہے کہ جب کشمیریوں کی تحریک آزادی کی نیو اٹھائی گئی ، جب نماز جہاد کی وہ پہلی اذان کہی گئی جس کی تکمیل 22شہدا ء نے مل کر کی ۔آج کی نسل شائد ہی جانتی ہو کہ کشمیر کی تحریک آزادی 1947میں قیام پاکستان کے بعد نہیں بلکہ 1940میں قرار داد پاکستان پاس ہونے اور پاکستان کا نام رکھنے سے بھی 9برس پہلے 1931میں شروع ہوئی تھی اور اس کا آغاز یہی اذان بنی تھی۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ کشمیرپر قابض’’ ہندوتوا‘‘ ڈوگرہ خاندان کے اقتدار میں اپریل سے جون 1931تک پے در پے توہین قرآن ، توہین رسالت اور نماز تک کی ادائیگی میں رکاوٹوں کا سلسلہ شروع ہونے پرکشمیریوں نے احتجاج کیا ۔ ایک نوجوان قدیرخان کو گرفتار کرکے سری نگر جیل میں مقدمہ چلایا جارہا تھا کہ جیل کے باہر احتجاج کے دوران نما زکا وقت ہونے پر ایک نوجوان نے جیسے ہی اذان شروع کی ، ڈوگرہ فوج نے اسے گولی مارکر شہید کردیا ، اس کے گرتے ہی دوسرا آگے آیااور جہاں سے پہلے موذن نے اذان چھوڑی تھی ، وہیں سے شروع کی ،اس نے بھی ابھی ایک کلمہ ہی کہا تھا کہ اسے بھی شہید کردیا گیا ، یوں یکے بعد دیگرے اذان کے کل 17کلمات مکمل کرتے ہوئے 22نوجوانوں نے جام شھادت نوش کیا۔ یہی تھی اذان جہاد ، جس پر مجلس احرار اسلام نے کشمیریوں کی مدد کے لئے جہاد کی کال دی اورمتحدہ ہندوستان بھر سے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لئے لپک پڑے ، ہر چند کہ انگریز سرکار نے اپنے اصلی وازلی گماشتے قادیانیوں کے ذریعہ سے اس مقدس تحریک میں زہر گھولنے کی کوشش کی لیکن اقبال ؒ کی بیدار مغز شخصیت اور احرار اسلام کی دور اندیش قیادت کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
اگر دیکھا جائے تو کشمیریوں کی ازان جہاد ہی تھی جس نے قائد اعظم ؒکی تحریک پاکستان کو قوت عطا کی اور ہندوستان بھر کا خوابیدہ مسلمان بیدار ہو کر جہاد آزادی کا سپاہی بن گیا ۔ اگر کہا جائے کہ 13جولائی کے شہدا ءکشمیر پاکستان اور تحریک پاکستان کے محسن ہیں تو غلط نہ ہوگا ،بلکہ یہی اصل میں بانیان پاکستان ہیں۔ المیہ مگر یہ ہے کہ پاکستان تو بن گیا، مگر کشمیر میں اس اذان کے بعد سے نماز جہادنہ صرف اب تک جاری ہے ، بلکہ جن عناصر کو اقبالؒ اور احرار کی مشترکہ سوچ نے 1931 میں شکست دے کر جہاد آزادی کی پاکیزہ جدوجہد کو بچایا تھا ، اب پون صدی بعد وہی عناصر ایک بار پھر کشمیر کے جہاد کو سبو تاژ کرنے کے درپے ہیں ،اس وقت برطانیہ ان کا سرپرست تھا، آج یہ امریکہ کی گود میں بیٹھے صرف کشمیر کی تحریک ہی نہیں پاکستان کو بھی ڈسنے کی کوشش میں ہیں ۔ افسوس مگر یہ کہ آج کوئی اقبالؒ نہیں جو اعلان کرے کہ:
دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نِگَراں اور
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
اب تو وہ بوڑھا نوابزادہ نصراللہ خان بھی نہیں ، جس نے1931میں اپنی جوانی میں کشمیر یوں کی اس اذان جہاد پر لبیک کہا اور زندگی کی آخری سانس تک اپنے عہد پر قائم رہا، اک سپاہی کی طرح مورچے پر ڈٹا رہا۔نوابزادہ قادرالکلام شاعر بھی تھے ، آخری عمر میں ایک مشاعرے میں کشمیری نوجوان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا :
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیش نظر سُنتِ سجادِ ولی ہے
اک برقِ بلا کُوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ میری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گرئِ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے
ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حُسین ابنِ علی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔