جمعرات‬‮   21   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

       
مناظر: 497 | 16 Jul 2024  

سیف اللہ خالد/عریضہ

نافع علم کی کونپل ہمیشہ زرخیز سوال کے مرہون ہوتی ہے، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات مبارکہ کے حوالہ سے برادرم صاحبزادہ ضیا ناصر نے فکر انگیز نقطہ اٹھایاہے کہ ’’ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی 7 سال عمر سے 54 سال کی عمر یعنی شھادت کے وقت تک، زندگی کے 47 سالوں کی دینی و ملی خدمات پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟‘‘ انہوں نے تو شیعہ وسنی دونوں مکاتب فکر کو باقاعدہ دعوت سخن دی ہے کہ اس حوالہ سے بھی بات کی جانی چاہئے، اس کے جواب میں ہر دوجانب سے ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیااور جوطعن وتشنیع انہیں سننا پڑا ، وہ کوئی حیرت کی بات نہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یوم شہادت پر میں لکھ چکا ہوں کہ صرف صحابہ ؓ ہی نہیں ، خاتم الابنیاء آقا محمد ﷺ اور خود ذات باری تک ہمارا تعلق اور رشتہ صرف تعصب کا ہے ، دل ودماغ ، عقل و علم اور اطاعت کا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے نام پر جان لینے اور جان دینے پر ہمہ وقت تیار ہیں ، لیکن ان کے فرمان عالی شان پر عمل کرنے ، یا ان کے نقش پا سے حیات مستعار کو مزین کرنے کو تیار نہیں ، بلکہ ہم ان کی یا ان کے بارے میں بات بھی صرف وہ بول کرتےہیں ، جو ہمارے فرقے کے تفردات کے مطابق ہو یا ہمارے ذاتی مفاد اور گھڑے ہوئے عقیدے کے مطابق ۔ بہت سے داعیان علم ودانش کو میری اس پر اعتراض ہوا ، بعض کو غصہ بھی آیا ، لیکن میری بلا سے ۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات مبارکہ کے حوالہ سے سوال پر بھی میرا جواب وہی ہے کہ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات مبارکہ سے صرف ضرورت اور تعصب کا رشتہ قائم کر رکھا ہے ، علم واطاعت کا نہیں ، جتناان کی ذات کا ذکر ہمارے فرقے کے موقف کی ضرورت ہے ، اس سے زیادہ کی کسی کو ضرورت نہیں ، یا یوں کہہ لیں کہ 7سال کی عمر تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بچپن ، آقا محمد ﷺ کی محبت سے عبارت ہے ، اس کا تذکرہ ثواب سمجھ کر کرلیا جاتا ہے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شھادت کو ہم نے ایک دوسرے کا ایمان پرکھنے کی کسوٹی بنا رکھا ہے ۔ اس میں چونکہ ہمارے کرنے کا کام نہیں ، صرف واہ یا آہ ہے لہٰذا کوئی بھی اس سے آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں ، بلکہ کسی کو اس سے دلچسپی ہی نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی 47سالہ حیات مبارکہ کو کیسے گزارا ؟، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بھرپور زندگی مدینہ منورہ میں لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے گزاری ، شادیاں کیں ، اولاد بھی ہوئی ، جہاد میں بھی بھرپور حصہ لیا ، سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی میں بھی حصہ لیا ، المیہ یہ ہے کہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گود میں کھیلنے والے حسنین کریمین ؓجن کی تربیت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمائی انہوں نے زندگی کیسے گزاری ، ان کی معاشرت کیا تھی ، معاش کیا تھا ، عبادات کیسی تھیں ، معاملات کیسے تھے ، دوستیاں کن سے تھیں ، پسند کیاتھی ، ناپسند کیا تھی ، گھوم جائیں پورے ملک میں کوئی عالم ، کوئی دانشور، کوئی مقرر کسی بھی فرقہ سے ہو ، بچپن کا ذکر کرے گا اور سیدھا کربلا میں پہنچ جائے گا ، مزے کی بات یہ کہ قوم کو بھی کوئی دلچسپی نہیں ، کوئی سوال ہی نہیں کرتا ، پوچھتا ہی نہیں ۔سوال تو پھر کیا جائے ، اگر ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش ہو ، ان کی حیات مبارکہ سے اپنی زندگی کو سنوارنے کو کچھ سبق حاصل کرنے کی تڑپ ہو۔ ہم ظلمتوں میں ٹھوکریں کھانے کو تیار ہیں ، اغیار کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر منہ مارتے ہمیں شرم نہیں آتی لیکن ان منبع انوار سے روشنی کی ایک کرن حاصل کرنے کے بھی ہم روادار نہیں ، نتیجہ سامنے ہے ، ذلت ومسکنت ہمارا مقدر بے سبب تو نہیں ۔
ایک صاحب علم محمد فہد حارث نے البتہ اس سوال کاا تفصیلی اور علمی جواب دیا ہے ، جو اس قابل ہے کہ اسے یہاں نقل کرتے ہوئے ذکر حسین ؓ کا حق ادا کیاجائے ۔ محمد فہد حارث لکھتے ہیں کہ ’’ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی درخشاں زندگی کربلا سے شروع ہو کے کربلا پہ ہی ختم نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ زندگی کے بقیہ سالوں میں ان کے کارنامے بند آنکھوں کو کھولنے کے لئے راہنما ہیں۔سیدنا حسینؓ بن علی رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی ان چند مظلوم شخصیات میں سے ہیں جو ایک حادثہ فاجعہ سے دوچار ہوکر نہ صرف مظلومانہ شہید ہوئے بلکہ ان کی پوری کی پوری شخصیت کو اس حادثہ تک محدود کردیا گیا ہے ، اور اسی کو تقاضہ محبت بھی قرار دیا جانے لگا ہے ، جوکہ درست نہیں ۔ ہما رے اس طرز عمل سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کے دوسرے نمایاں خدوخال اور کارنامے محو ہوکر رہ گئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کے کئی دوسرے گوشے بلکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ؓ کی جلالت قدری اور عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارا وہ طبقہ ہے ، جسے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں واقعہ کربلا کے علاوہ اور کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ اس پر کبھی بات کرتے ہیں ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو کہ ایک دوسری انتہا پر جا کر انتہائی گستاخانہ لہجے میں دعوی کرتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں کربلا کے علاوہ اور کوئی قابل ذکر بات تھی ہی نہیں۔ استغفراللہ۔ یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ جبکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد سے عبارت تھی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد جوانی سے ہی مختلف غزوات میں شامل رہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عہد طفولیت میں تھے لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں عہد جوانی میں قدم رکھتے ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تمام نمایاں غزوات اور جہادی مہمات میں شامل رہے۔چنانچہ خلافت عثمانی کے دور میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوہ طبرستان میں شرکت فرمائی۔ جس کی امارت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو فوج افریقہ روانہ فرمائی ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس میں بھی شامل تھے اور افریقہ فتح ہونے تک دشمنوں سے لڑتے رہے۔ طرابلس میں رومیوں کے خلاف برسرپیکار رہے جبکہ سبطلہ کے حاکم جرجیر کی ڈیڑھ لاکھ فوج سے جہاد کیا اور فتح مند ہوئے۔ (جاری ہے )

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0