سیف اللہ خالد /عریضہ
خبر ہے کہ آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ گئی ہے ، یعنی قوم کی جانب سے امراء اور اشرافیہ کو ادا کیا جانےو الا بھتہ 2200 دفاعی بجٹ سے 4سو ارب زیادہ سالانہ 2600 ارب روپے ہوگیا ہے۔ اس پر کوئی بولنے کو تیار نہیں ، سب منقار زیر پر ہیں ۔عقل دنگ ہے کہ اس لوٹ مار کو کیا نام دیا جائے ،یقین کرنا مشکل ہے کہ سالوں بلکہ دہائیوں تک ننگی لوٹ مار کے ایسے سفاک اور بے رحم معاہدے کرنے والے پاکستانی ہی تھے؟ لیکن معاہدوں پر موجود دستخط اس امر کا ثبوت ہے نہ صرف یہ سب پاکستانی بلکہ عوام کی خدمت کا دم بھرنے والے سیاستدان اور حکمران تھے۔ جس بے شرمی ڈھٹائی اور بےدردی کے ساتھ صرف عوام نہیں ریاست کی معیشت کو برباد کرکے رکھ دینے والے یہ معاہدے کئے گئے ہیں ، اس کی مثال دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی یہاں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار بھی اس کے سامنے ہیچ ہے ۔ اس سے بڑا بے رحم اقدام کیا ہوگا کہ بجلی کی قیمتوں کے سبب عام آدمی دووقت کی روٹی کامحتاج ہوگیا ہے ،لوگ بچوں کو قتل کرکےخودکشیاں کر رہے ہیں ملکی صنعت بند ہوتی جارہی ہے، معاشی بحران کے سبب قومی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے، اس کے باوجود عوام کو کفائت شعاری کے بھاشن دینے والی حکومت نے آئی پی پیز کو ایک بھی یونٹ بجلی خریدے بغیر 1929 ارب سے زیادہ کی رقم ادا کردی ہے ۔بوڑھوں اور بیوائوں کی پینشن میں کٹوتی کے منصوبے ہیں اور دوسری جانب یہ کھلم کھلا لوٹ مار۔ حکومت جھوٹ بولتی ہے کہ تمام آئی پی پیز غیر ملکی ہیں ، صرف 20فیصد کی ملکیت بیرون ملک سے ہے ، بقیہ 80 فیصد میں سے 52حکومت پاکستان کی ملکیت اور 28فیصد پاکستان کے 40کے قریب سیاستدانوں اور دیگر شخصیات کی ملکیت ہیں ، سیاستدانوں میں نمایاں نام جہانگیر ترین، آصف علی زرداری، عبدالرزاق داؤد، یوسف رضا گیلانی، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خسرو بختیار، سلیم سیف اللہ اور کاروباری اداروں میں نمایاں نام نشاط گروپ، سہگل گروپ، ڈسکان، گل احمد گروپ، صبا گروپ ، فوجی فرٹیلائزراور دیگر شامل ہیں ، مزید میں سیاستدان ، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور سابق ڈپلومیٹس بھی شامل ہیں ۔ یہ لوگ وہ ہیں ، جو ملکیت رکھتے ہیں ، جنہوں نے کچھ نا کچھ بقدر اشک بلبل ہی سہی سرمایہ کاری کی ہے ، جنہوں نے صرف دستخط کرنے اور معاہدے کروانے کے عوض اربوں کھربوں کمائے ہیں ، ان کے ناموں کی بھی ایک طویل فہرست ہے ، ایک سینیئر صحافی جو 1993-94میں لوٹ مار کی اس پہلی واردات کے گواہ ہیں ، ان کا دعویٰ ہے کہ صرف معاہدے لکھنے میں معاونت کرنے والے وکلا ء نے اتنا کمایاکہ پریکٹس چھوڑ کر بیرون ملک جا بسے کہ اب عمر بھر کی عیاشی کو یہ کافی ہے ۔ لوٹ مار کی اس واردات میں چونکہ سب حکمران شامل ہیں ، لہٰذا بندوبست فول پروف کیا ہوا ہے ، کسی سرکاری دستاویز میں اصل مالکان کے نام نہیں صرف اداروں کے نام دیئے گئے ہیں ۔دیدہ دلیری کی اور کیا حد ہوگی کہ 1929ارب کی ادائیگیاں عین اس وقت کی گئی ہیں جب پوری قوم سراپا احتجاج ہے ، اور اس مسئلہ پر روز بات ہو رہی ہے ، لیکن اس سے بھی بڑی ڈھٹائی کہ 4آئی پی پیز کے لائسنسوں کی تجدید موجودہ کفائت شعاری فیم حکومت نے کی ہے اور ان میں سے بھی دو کو تو ابھی گزشتہ ماہ 12جون کو لائسنس جا ری کیا گیا ہے ، وہ 2059تک ، یعنی کرلو جو کرنا ہے ، ہم نے باز کوئی نہیں آنا ۔ حکومت مخالف اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے خصوصا پی ٹی آئی والوں کو بھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی ’’ہم کسی کے غلام نہیں ،‘‘ حقیقی آزادی کے نعرے لگانے والی حکومت نے بھی ایک جانب 12آئی پی پیز کےلائسنسوں کی تجدید کرکے قوم کو 2054تک معاشی غلامی میں دھکیلا اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ اگست 2020میں آئی پی پیز مافیا کے ساتھ آئی پی پی مالک وزراء کے ذریعہ سے مذاکرات کئے ،اس وقت تک آئی پی پیز کے ذمہ اربوں کے واجبات معاف کئے اور معاہدہ میں تبدیلی کےنام پر ایک لنگڑا لولا ایم او یو کرکے قوم کو دھوکہ دیا خود اس ایم اویو میں درج ہے کہ اس سے بنیادی معاہدہ متاثر نہیں ہوگا ، مطلب یہ کہ جو اضافی فوائد آئی پی پی مالک وزراء نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سمیٹے وہ انہیں دستیاب ہوں گے ، لیکن بنیادی معاہدے میں لوٹ مار کا لائسنس متاثر نہیں ہوگا، اس ایم او یو پر دستخط کرنے والے پی ٹی آئی کے وزیر توانائی عمر ایوب تھے ۔ ( جاری ہے )
آئی پی پی کا حمام اور ۔۔۔۔؟
مناظر: 667 | 24 Jul 2024