جمعرات‬‮   26   دسمبر‬‮   2024
 
 

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

       
مناظر: 262 | 6 Aug 2024  

سیف اللہ خالد / عریضہ

اندراگاندھی نے سقوط ڈھاکہ پر کہاتھا’’میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں دبو دیا‘‘آج دوقومی نظریہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر راج کر رہا ہے۔غدار ابن غدارباپ دادا کی غداریوں کے سرٹیفکیٹ ماتھے پر سجاکر حسینہ واجد کی چاکری کرنے کے شوقین،اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو گالی دینے اورڈھاکہ ڈھاکہ پکارنے والےذہنی بیمارچلو بھر پانی میں ڈوب مریں کہ ان کی’’ہیرو‘ فرار ہوگئی، ان کا رومانس کوڑے دان میں جا پڑا،بنگلہ دیشی عوام نے اسے ’’رجا کار رجا کار ‘‘ کے نعروں کے ساتھ بھاگنے پر مجبور کیا۔مکتی باہنی کےجن غنڈوں کو غداران وطن کی اولاد ہیرو بنا کر پیش کرتی تھی ، پورے بنگلہ دیش میں چوہوں کی طرح بلوں میں جا گھسے۔یہ غیرت مند ہوتے تو جس طرح ایوارڈ لینے بھاگے گئے تھے ، اب بھی جاتے ، اظہار یک جہتی کے لئے ہی سہی ، مگر غیرت مند ہوتے تو غداری کرتے؟ ، غیرت رکھتے تو وطن فروشی پر فخر کرتے؟ایوارڈ لیتے؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ ڈھاکہ میں 1971کی جنگ دہرائی گئی ہے،بھارت،اس کی رکھیل مکتی باہنی اور مجیب کی سپتری کو شکست فاش ہوئی ہے۔دو قومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ ڈھاکہ کی سڑکوں پر راج کر رہا ہے۔اس جنگ کو 1971 کا اعادہ کسی اورنے نہیں خود حسینہ واجد نےقراردیاہے ۔13جولائی کو بڑے طنطنے کے ساتھ کہا تھا ’’پاکستانی فوج کے تنخواہ دار ’’جماعتی‘‘، سونار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ ’’دیش کو 1971ء کی سی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا 1971ء کے ’’خونی رجاکاروں‘‘ کی اولاد کو نوازا جائے!‘‘ یہ دراصل 1971ء میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں(رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے اور بھارتی فوج و مکتی باہنی سے ٹکراگئے یہ لوگ خود کو رجا کار( رضا کار ) کہتے تھے ۔قومیت کا یہ تیر کارگر تو کیا ہوتا، تحریک کو نئےمعنی اور نعرے ضرور مل گئے ۔ ’’توئی کی، امی کی، رجاکار، رجاکار‘‘ (تو کون؟ میں کون؟ رضاکار، رضاکار) ’’چھیتے گلم اودھیکار، ہوئے گلم رجاکار ‘‘ (اگر حق چاہتے ہو تو رضاکار بن جائؤ)۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں نعروں نے تحریک میں جان ڈالی اور معمول کے احتجاج کو نظریاتی جنگ میں بدل ڈالا۔
میرے موبائل میں ایک ویڈیو ہے، ایک ہفتے سے سینکڑوں بار دیکھ چکا ہوں ، میری بیٹیوں کی عمر کی ڈھاکہ کی ایک بیٹی ہزاروں کے جلوس کی قیادت کرتے نعرے لگا رہی ہے ،’’توئی کی، امی کی، رجاکار، رجاکار‘‘اس کا تمتماتا چہرہ اور خوف سے آزاد پر عزم وپر اعتمادلب لہجہ بتا رہا ہے کہ یہ ان کروڑوں بنگالیوں میں سے کسی ایسے خاندان کی چشم وچراغ ہے،جن پربنگلہ دیش مسلط کیا گیا لیکن ان کے دلوں سے پاکستان نکالا نہیں جا سکا، اس کے ساتھ ہزاروں طلبہ جس جوش وخروش اور جذب کے ساتھ نعرہ زن ہیں ، یہ بتانے کو کافی ہے کہ ان کی پرانی نسل نے اپنی نئی نسل کے دل ودماغ میں دو قومی نظریہ اور ’’رجا کار‘‘ کی عزت کس طرح سے راسخ کر رکھی ہے ۔ 2009کا ایک فضائی سفر یاد آگیا،راس الخیمہ ایئر لائن کی بنگالی ایئر ہوسٹس نے بڑی رازداری مگر فخر سے بتایا ’’ مجھے اردو بھی آتی ہے۔ میری دادی نے سکھائی ہے ، وہ لاہور سے پڑھی ہوئی ہیں اور لاہور کو بہت یاد کرتی ہیں‘‘۔بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کے نام سے پکارااور بتایا کہ میں بھی لاہور سے پڑھاہوں تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ منزل پر جانے سے پہلے راس الخیمہ میں کچھ گھنٹے کا قیام تھا ، جہاں سے بورڈنگ کارڈز بھی دوبارہ جاری ہوئے ، حیرت ہوئی کہ سیٹ اکانومی سے بزنس کلاس میں اپ گریڈ کردی گئ ، معلوم ہوا اسی ایئر ہوسٹس کا کمال ہے ۔ پھر جدہ تک وہ اپنی دادی کی پاکستان سے محبت کی داستانیں سناتی رہی۔ واپسی پر اسی ایئر لائن کی فلائٹ تھی ، اتفاق یہ کہ ایئر ہوسٹس بھی وہی، اس نے فوراً ٹکٹ جھپٹا اور ایک بار پھر سیٹ اپ گریڈکروالائی ، سمجھنا مشکل تھا کہ اس عمر کی لڑکی پاکستان کے لئے اس قدر جذباتی کیوں ؟سوال کیا تو کہنے لگی’’پاکستان آج بھی ہماری محبت ہے‘‘عجیب مطالبہ تھا’’میری دادی کے لئے آٹو گراف دیں ، مگر اردو میں لکھیں‘‘۔ کچھ اور نہ سوجھا تو فیض کا یہ شعر لکھ دیا ۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
آج ثابت ہوا کہ یہ کوئی ایک دادی نہیں تھی جس نے آنے والی نسلوں کے دل میں پاکستان کی محبت کا بیج بویا، یہ ایک نسل کی محبت ہے ، جو اس نے اپنی آنے والی نسلوں کے سپرد کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ۔
ایک طرف وہ ہیں ، جو نصف صدی بعد بھی ’’توئی کی، امی کی، رجاکار، رجاکار‘‘ کے نعرے عبادت سمجھ کر لگا رہے ہیں اور ایک یہاں ہیں،ناشکرے، غدار ، مجیب بننے کے شوقین، کاش شعور کی آنکھ سے دیکھ پائیں کہ ڈھاکہ کی سرزمین نے مجیب کابت پاش پاش ہے،معنوی طور پر بھی،حقیقت میں بھی،ایک بھی مجسمہ قائم نہیں رہا، وزیر اعظم ہائوس میں بھی نہیں ، جوتوں کے ہار پہنائے گئے ، توڑا ، گرایا گیا ، سڑکوں پر گھسیٹا گیا ، وہ زندہ ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوتا ۔ ایک اور ہیں جو پاکستان کے خلاف بھارتی ایف آئی آر کے منتظر تھے ، آنکھیں کھول کر دیکھ لیں ، ان کا بھارت ڈھاکہ میں یوں رسوا ہوا کہ کٹھ پتلی حسینہ کو فرار ہوتے بنی ،اور وہ راتب خور جو اک نئے ڈھاکہ کی آس لگائے بیٹھے ہیں ، دیکھ لیں ڈھاکہ کی سڑکوں پر’’ رجا کار ‘‘کا راج قائم ہےاور ان کی مکتی باہنی اپنے نئے نام ’’چھاترو لیگ ‘‘ کے ساتھ بھی نفرت کا نشان بن چکی ہے،پورے ملک میں کوئی نام لینے والا بھی نہیں ۔ پاکستان کے ساتھ غداری کرنےوالوں کی نسلیں بھی انجام کو پہنچ رہی ہیں۔ آج ڈھاکہ میں شیخ مجیب مجسموں کے ساتھ بنگالیوں نے جو کیا وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ تاریخ کبھی غداروں کو معاف نہیں کرتی۔ میر جعفر اور میر صادق کی طرح، وطن سے غداری کرنے والوں کو ہمیشہ عبرتناک انجام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ تحریک کوئی وقتی ابال نہیں بلکہ پورا ایک پس منظر رکھتی ہوئی منظم تحریک ہے جو قدم بقدم چلتی یہاں تک پہنچی ، بظاہر اس کا پس منظر دہشت گرد مکتی باہنی والوں کے بچوں، پوتے پوتیوں اور نواسے،نواسیوں کے لئے نوکریوں میں 30فیصد کوٹے کے خلاف احتجاج تھا۔حسینہ واجد نے مگر جب عوامی لیگ کے طلبا ونگ’’ بنگلہ دیش چھاترا لیگ‘‘ یعنی مکتی باہنی کو ایک بار پھر میدان میں اتارا اورمظاہرین کو پاکستانی فوج کے تنخواہ دار قرار دیا تو سمجھ آگئی تھی کہ اس احتجاج کے محرکات اس کشمکش سے جا ملتے ہیں جو بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی، یعنی وہ جذبات جو سینوں کے اندردہک رہے تھے اب الائو بن کر بھڑک اٹھے ۔یہاں تک کہ وزیر اعظم کو فرار ہونا پڑا ، حالانکہ چند ماہ قبل ہی وہ جعلی الیکشن کے ذریعہ سے ایک بار پھر اقتدار ہر مسلط ہوئی تھی۔ اس کے آمرانہ عہد میں بنگلہ دیش کی معیشت نے ترقی کی ، لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی لیکن آزادی کا کوئی نعم البدل کہاں؟ یہ تحریک بھارت اور اس کے تسلط سے نفرت کی علامت تھی کیونکہ حسینہ جان بوجھ کر بنگلہ دیش کی معیشت کو مزید انڈیا کے زیر اثر کرتی جا رہی تھی ۔ وہ بہت تیزی سے بنگلہ دیش کو انڈیا کی سرپرستی میں چلنے والی ’’دیسی ریاست‘‘ کا روپ دینے کی طرف گامزن تھی، جس میں ’’دیسی حکمران‘‘ کو ’’کمپنی بہادر ‘‘کی جانب سے مکمل تحفظ کی یقین دہانی حاصل ہو اور اس کے بعد کمپنی بہادر عوام کے ساتھ جو چاہے کر گزرے ۔ حقوق کی تحریک کو نظریاتی جنگ حسینہ نے بنایا ، اور ’’رجاکاروں‘‘ نے حسینہ کا نظریہ دفن کرکے اسے شکست فاش دے کر یہ جنگ جیت لی۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں حسینہ واجد بھارت کے شہر اگرتلہ پہنچی ہے ، جہاں سے وہ برطانیہ فرار ہوجائے گی ۔ اس کے باپ شیخ مجیب نے اسی اگر تلہ سے غداری کا کھیل شروع کیا تھا ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0