جمعرات‬‮   19   ستمبر‬‮   2024
 
 

مقبوضہ کشمیر مزید نئے فوجی قوانین کا نفاذ

       
مناظر: 589 | 13 Sep 2024  

 

تحریر : راجہ اعجاز احمد شاہق

کشمیر کاتنازعہ، جنوبی ایشیا میں سب سے طویل عرصے سے جاری اور سب سے زیادہ متنازعہ مسائل میں سے ایک ہے ۔کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے نئی دہلی کے غیر قانونی قبضے کی زد میں ہے جہاں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ،بڑے پیمانے پر قتل، جبری گمشدگی، تشدد، عصمت دری اور جنسی استحصال سے لے کر سیاسی جبر اور آزادی اظہار کو دبانے کی شکل میں جاری ہیں خطے میں کنٹرول اور جبر کا مرکز بھارتی حکومت کے نافذ کردہ سخت قوانین کا ایک سلسلہ ہے۔ کالے قوانین کے تحت مکمل استثنیٰ حاصل کرنے والی بھارتی فوج، سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور بارڈر سکیورٹی پرسنل (بی ایس ایف) کشمیری شہریوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اے ایف ایس پی اے، پی ایس اے اور یو اے پی اے کے علاوہ ہندوستانی حکومت کشمیریوں کو دبانے کے لئے اینمی ایجنٹ آرڈیننس (ای اے او) کو نافذ کر رہی ہے، جسے 1943ء میں برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاسوسی کے انسداد کے لئے نافذ کیا تھا، آزادی کے بعد، اس آرڈیننس کو برقرار رکھا گیا اور وقفے وقفے سے یہ کشمیر سمیت ہندوستان کے مختلف حصوں میں استعمال ہوتا رہا۔ کشمیر کے تناظر میں ، آرڈیننس کو سیاسی اختلاف کو دبانے اور ریاست کے خلاف سمجھے جانے والے لوگوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے اکثر بغیر کسی ثبوت کے استعمال کیا جا رہا ہے۔
23 جون 2024ء کو جموں و کشمیر کے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل آر آر سوین نے اعلان کیا کہ اینمی ایجنٹس آرڈیننس ان کشمیریوں سے نمٹنے گا جو غیر ملکی دہشت گردوں کی حمایت کرتے پائے گئے ہیں۔ EAO ٹھوس شواہد کے بجائے شک کی بنیاد پر افراد کو حراست میں لینے کی اجازت دیتا ہے، جس سے من مانی گرفتاریوں کا دروازہ کھلتا ہے۔
EAO کا غلط استعمال انسانی حقوق کی اہم خلاف ورزیوں کا باعث بنے گا اور شہری آزادی کو نقصان پہنچے گا۔ کشمیر میں سخت قوانین کا استعمال خطے میں قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔ AFSPA, PSA اور UAPA اور اب EAO جیسے قوانین کا مسلسل اطلاق نہ صرف جمہوری اصولوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں مزید بیگانگی اور بدامنی کو ہوا دیتا ہے۔ کشمیری عوام کی شکایات کا ازالہ اور انصاف اور زیادتیوں کے مرتکب فوجی حکام کی جوابدہی کو یقینی بنانا دیرپا امن و استحکام کے لئے ضروری ہے اور عالمی برادری کو ان مسائل کو حل کرنا چاہئے۔
کشمیری اس ایکٹ سے قبل جن کالے قوانین کا سامنا کر رہے ہیں، ان میں آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ شامل ہے، جو 1958ء میں نافذ کیا گیا تھا اور 1990ء میں اسے جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا۔ یہ قانون خطے میں ہندوستانی مسلح افواج کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے ، جس میں بغیر وارنٹ گرفتاری، گولی مار کر قتل اور رضامندی کے بغیر تلاشی شامل ہے۔ پتھری بل انکائونٹر (2000)، مڑہل انکائونٹر (2010) ، کنن پوشپورہ اجتماعی عصمت دری (1991) ، بیج بہاڑہ قتل عام (1993) اور ہنواڑہ کا واقعہ (2016) ایسے واقعات ہیں جہاں کشمیر میں AFSPA کا غلط استعمال کیا گیا ہے، جس سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
AFSPA کے علاوہ جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، 1978ء میں نافذ کیا گیا ، جو امن عامہ کو برقرار رکھنے کی آڑ میں عوام کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ سیاسی مخالفین، کارکنوں اور عام شہریوں کے خلاف اس کے اکثر غلط استعمال کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پی ایس اے کو ’’غیرقانونی قانون‘‘ کا نام دیا ہے۔
کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کا غلط استعمال بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بنا ہے مسرت عالم بھٹ، شبیر احمد شاہ، وحید پرہ، میاں عبدالقیوم، آسیہ اندرابی اور متعدد بچوں کی گرفتاریوں خطے میں خوف اورجبر کی فضا کو برقرار رکھنے میں PSA کے کردار کو واضح کرتی ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ (UAPA) 1967 نافذ کیا گیا، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ اپنے دائر کار کو بڑھانے کے لئے کئی ترامیم سے گزر چکا ہے۔ اس کا مقصد ہندوستان میں غیر قانونی سرگرمیوں اور تنظیموں کے قیام کو روکنا ہے۔ تاہم، کشمیر میں، UAPA کو دہشت گردی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کے الزام میں، اکثر کمزور بنیادوں پر نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ (UAPA) کا غلط استعمال شہری آزادیوں، آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے حوالے سے اہم خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔ آصف سلطان، خرم پرویز، گوہر گیلانی، مبین شاہ اور عرفان معراج کے کیس اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح اس ایکٹ کا فائدہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے، صحافیوں کو نشانہ بنانے اور سول سوسائٹی کو دبانے کے لئے کیا جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0