سیف اللہ خالد / عریضہ
ٹائمز آف اسرائیل کے عمران خان ا ور اسرائیل کے تعلقات کے حوالہ سے دعوے کی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ اب اسرائیل کے ایک دوسرے بڑے اخبار یروشلم ٹائمز نے نیا دھماکہ کردیا ہے۔ عمران خان کو اسرائیل کا حمایتی اور فوج کو اسرائیل مخالف قرار دیتے ہوئے ٹائمز آف اسرائیل کے دعوؤں کی نہ صرف تصدیق کر دی ہے ، بلکہ بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ یروشلم ٹائمز نے ہیری رچر کا آرٹیکل شائع کیا ہے ، جس کا تعارف یہ ہے کہ یہ کوئی عام سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کا برطانوی تجزیہ کار ہےجو برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن کےسینئر معاون اور اقتصادی مشیر کے طور پر کام کر چکا ہے۔ مضمون نگار نے سابق پاکستانی وزیر اعظم پر سنگین الزام تراشی کی ہے اور کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسرائیل کے خلاف عوامی سطح پر سخت سیاسی بیان بازی کی لیکن اندر کھاتے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا، وہ اسرائیل کے ہم خیال سیاست دان ہیں۔‘‘ یروشلم پوسٹ کے اس مضمون نے پی ٹی آئی کی پوری جدوجہد پر بھی سنگین سوالات اٹھا دئے ہیں ، اور کہا ہے کہ’’ پاکستان کی اسرائیل دوست خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک فوائد ہیں لیکن اس کے لئے موجودہ سیاسی قیادت کو بدلنا ہو گا ، عمران خان عوامی رائے اور فوجی پالیسی دونوں کو تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے ۔ ‘‘
معاہدہ ابراہیم کی سالگرہ کے موقع پر اسرائیل کے جغرافیائی اور سیاسی نقشہ پر نظر ثانی کے عنوان سے اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ’’ اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی ابتدائی کوششوں کا آغاز ایسے اتحادیوں کو تلاش کی ضرورت سے ہوا تھا ، جن سے تعاون کی بنیاد مشترکہ مفاد ہو نہ کہ مذہب یا ثقافت۔یہ حقیقت ہے کہ ابراہیم معاہدے نے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان بہت سی رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے، جس کے بعد اب توجہ ایک بار پھر ان غیر عرب مسلم اکثریتی ممالک کی طرف مبذول ہو گئی ہے جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لا سکے، ان میں انڈونیشیا اور پاکستان سر فہرست ہیں ۔پاکستان ایک دلچسپ معاملہ ہے، اگرچہ اس نے ایک طویل عرصے سے فسلطین کی حمائت میں پالیسی اور عملی سفارتی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہےلیکن حالیہ برسوں میں اس کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کے اشارے بھی سامنے آئے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے – اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف سخت بیان بازی کی لیکناسرائیل کے حوالہ سےنے – پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا راستہ بنانے کی ضرورت کا اشارہ بھی دیا۔ یہ خاص طور پر اس وقت کیا گیا جب باقی مسلم دنیا نے اپنے مفاد کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا تھا۔ \خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی نے ملک کے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیت کر سیاست میں اپنا اثرورسوخ – ثابت کیا ہے ، اس سے وہاں ( پاکستان میں ) ایک ہم خیال اور عملی رہنما کا ابھرنا اس امر کادوبارہ جائزہ لینے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے کہ پاکستان کس حد تک اسرائیل سے تعلقات پر نظر ثانی کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ‘‘ پاکستان کے گہرے اقتصادی بحرانوں کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف تاریخی دشمنی ‘‘ کے ذیلی عنوان سےاخبار لکھتا ہے کہ ’’اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے پاکستان کو اہم اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے، جن میں زراعت، سائبر سیکیورٹی، اور دفاع میں تکنیکی مدد کے ساتھ ممکنہ سرمایہ کاری قابل ذکر ہے ۔ صرف 2022 میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت 124 فیصد اضافے کے ساتھ 2.59 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو اس صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔پاکستان کی جانب سے ایک زیادہ متنوع خارجہ پالیسی اس کے ساتھ اسٹریٹجک فوائد بھی لے سکتی ہے کیونکہ ہندوستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو آگے بڑھانا اس کی ضرورت ہے۔پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات معمول پر آنے کو روک رکھا ہے، اسےتبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ممکنہ طور پر کسی بھی معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے قیادت میں تبدیلی کی ضرورت ہو گی، اور خان جیسی شخصیات یقیناً علاقائی حرکیات کے مسلسل ارتقاء کے ساتھ ساتھ عوامی رائے اور فوجی پالیسی دونوں کو تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہیں۔نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اس عمل کو بہت تیز کر سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس سے قبل فوجی اور مالی مراعات کی مدد سے ابراہیم معاہدے کو زیادہ سے زیادہ ممالک تک پھیلانے کے لیے پرعزم تھی۔ اس لیے ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت پاکستان اور یہاں تک کہ انڈونیشیا جیسی ریاستوں کو بھی شامل کر سکتی ہے، جو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی مسلم ریاستیںہیں۔ابراہم معاہدے نے یہ ثابت کیا ہے کہ نظریاتی اختلافات، جن کی جڑیں کئی دہائیوں پرانے تنازعات میں ہیں، انہیں باہمی مفادات کے اشتراک سے دورکیا جا سکتا ہے ۔ سفارت کاری امکانات کا فن ہے اور 21 ویں صدی کے جغرافیائی اور سیاسی نقشے کو دوبارہ تیار کرنے کی صلاحیت آج کسی بھی سابقہ دور کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ صحیح وژن اور قیادت کے ساتھ، اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان معمول پر آنے کا اگلا مرحلہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔‘‘
اسرائیلی اخبارات میں تسلسل کے ساتھ پاکستان سے تعلقات کےا شارے اورعمران خان کا حوالہ کوئی معمولی واقعہ نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ صہیونی دماغ ہمیشہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ، لہٰذا عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے حوالہ سے یہ مہم بھی اسی پرپیگنڈہ کی جنگ کا حصہ ہو ، لیکن اس کا فیصلہ خود پی ٹی آئی اور عمران خان کا رویہ کرے گا کہ واقعی وہ صہیونی ریاست سے تعلقات کے لئے بے تاب ہیں یا یہ سب پروپیگنڈہ ہے ۔ بدقسمتی سے یہ کہ اب تک کا ان کا رویہ اسرائیلی اخبارات کی الزام تراشی کی تصدیق کر رہا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی سٹوری کے خلاف پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بھی ایسی تردید نہیں آئی جسے آفیشیل کہا جا سکے ، نہ ہی سوشل میڈیا نے اس کی تردید کی ۔اب بھی یروشلم ٹائمز کا مضمون سات روز قبل 15ستمبر کاشائع شدہ ہے ، اسی روز سے یروشلم پوسٹ اپنے ٹویٹر پر اس کے مندرجات شیئر کر رہا ہے ، لیکن تادم تحریر پی ٹی آئی یا عمران خان کی جانب سے کوئی وضاحت یا تردید سامنے نہیں آئی۔ مضمون نگار برطانوی شہری ہے، پی ٹی آئی چاہتی تو اس کے خلاف وہاں مقدمہ دائر کر سکتی تھی ، لیکن تاحال ایسا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا ۔ کاش یہ جھوٹ ہو ، اور پی ٹی آئی یا عمران خان ا س کی تردید کردیں ، کیو نکہ معاملہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ایک سیاسی جماعت کا ہے ، پاکستان کے لئے ،پاکستانی قوم کے لئے یہ ایک بڑی شرمناک بات ہے کہ ایک طبقہ صہیونیت کا حامی بھی ہے ۔ جہاںتک پاکستانی قوم کے جذبات کی بات ہےتو بھوک، غربت اور معاشی عدم استحکام سب کچھ ہم برداشت کر چکے ، لیکن کسی مفاد یا خود کے سبب پہلے کشمیر یا فلسطین سے غداری کی ہے نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے ۔ پاکستانی قوم اپنے اہداف ، نظریات اور قومی پالیسیوں پر بہت واضح ہے ، اسے کسی مشورے کی ضرورت نہیں ، البتہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو ان یکے بعد دیگرے دوتفصیلی مضامین کے بعد اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی ، ان کی خاموشی یا لیت ولعل الزام کو سچ ثابت کرنے کو کافی ہوگا۔
اسرائیل ٹائمز کے بعد اب یروشلم پوسٹ
مناظر: 419 | 23 Sep 2024