سیف اللہ خالد /عریضہ
انکار ختم نبوت کی سزا ہے یا آقا محمد ﷺ کا در رحمت چھوڑ کر’’ یک چشم گل‘‘ دجال کی پیروی کی نحوست کہ قادیانی ٹولے نے ہمیشہ اپنے سر میں خود خاک ڈالی ، جب بھی،جس کسی سے بھی سازش کے ذریعہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ، وہیں سے ایسا زناٹے دار طمانچہ رسید ہوا کہ گونج چہار دانگ عالم سنی گئی اور ان کی تیرہ بختی کا ڈنکا ہر سو یوں بجا کہ امت مسلمہ کو بھولا ہوا سبق یاد آگیا اور بچہ بچہ نہ صرف آقاﷺ کی ختم نبوت کا پھر سے اقرار کرنے لگا بلکہ دشمنان ختم نبوت کے کالے کرتوت اور گھٹیا لٹریچر بھی پھر سے زیر بحث آیا۔دنیا کا ہر مذہب ، تحریک یا کوئی بھی گروہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا لٹریچر عام ہو، اس کے بانی کے خیالات سے لوگ آگاہی حاصل کریں ، اس روسیاہ کلٹ کو اپنے بانی کی یاوہ گوئی ، افترا پردازی اور ہفوات نگاری کے قابل نفرین ہونے کا اتنا یقین ہے کہ اپنی ہی جماعت کے جہلا ء پر بھی پابندی ہے کہ وہ بانی کا لٹریچر نہیں پڑھیں گے ، کیونکہ جو بھی پڑھتا ہے ، لعنت بھیج کر آقا محمدﷺ کے جوار رحمت میں پناہ حاصل کرنے کو دوڑ پڑتا ہے۔ سب سے بڑی مثال فرانس میں اس جماعت کے سابق امیر اور عمر کے آخری حصے میں سچے عاشق رسول شیخ راحیل کی ہے ۔
مغرب کے تعلیم یافتہ، مولیوں کے مخالف اور لبرل ذالفقار علی بھٹو سیاست میں آئے تو انہوں نے مشہور کردیا کہ’’ ہمارا ہی بندہ‘‘ ہے۔اسی ذالفقار علی بھٹو نے غیرت ایمانی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ قادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کردیا ، دشمنان ختم نبوت ابھی تک بلبلاتے پھرتے ہیں ، ڈھٹائی اور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ ضیاء الحق جیسے دیندار اور نمازی پرہیزی شخص کے بارے میں بھی قادیانی پروپگنڈہ بریگیڈ نے یہی پروپیگنڈہ کیا، ضیاالحق نے امتناع قادیانیت ایکٹ کے ذریعہ سے بھٹو کے ادھورے کام کو مکمل کرکے قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ نامعلوم یہ کس زعم میں تھے کہ سیدھے سے ضمانت کے کیس میں عدالت کو گمراہ کرکے قادیانیت کے تبلیغ کا چور راستہ نکالنے کی سازش کر ڈالی ، جس میں عارضی کامیابی انہیں اس وجہ سے مل گئی کہ خود چیف جسٹس نے اپنے حتمی فیصلے میں اعتراف کیا ہے کہ ’’ انہیں ان کے حوالہ سے پورا مطالعہ نہیں تھا ۔‘‘ لہٰذا شور اٹھا ، امت نے بیداری کا ثبوت دیا اور صرف چیف جسٹس ہی نہیں بلکہ پورے بینچ نے قادیانیت کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے حتمی فیصلے میں انہیں کی کتب روحانی خزائن وغیرہ سے حوالے دے کر ایسا فیصلہ لکھا ہے کہ جسے قادیانیت کے حوالہ سے قول فیصل قرار دیا جا سکتا ہے ، عدالت عظمیٰ نے گویا قادیانیت کا مردہ دفن کر دیا ہے اور مستقبل کے لئے بھی کسی چور دروازے کی تلاش کا امکان تک باقی نہیں رہنے دیا ، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جج صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں ، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما ء اور قائدین بھی تحسین ومبارک کے مستحق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حرمت اور ختم نبوت کے لئے اپنے اختلافات ختم کرکے ، یک جان ہوئے اور قادیانیت کو ایک بار پھر قانون اور دلیل کے میدان میں چاروں شانے چپ کردیا ۔
قادیانیوں کا المیہ یہ ہے کہ چونکہ خود راندہ درگا ہ اور ایمان سے تہی دست وتہی دامن ہیں ،لہٰذا غیرت ایمانی اور حب رسول ﷺ کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے ، جو بھی صاحب اختیار لبرل خیالات کا حامل دکھائی دیتا ہے ، یہ سمجھتے کہ شائد ان کے جال میں پھنس جائے گا ، یہ نہیں جانتے کہ ایک مسلمان وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو ، کتنا ہی عمل سے دور کیوں نہ ہو ، ہماری طرح گناہ گار ہی کیوں نہ ہو ، آقاﷺ کی ناموس اور ختم نبوت سے غداری کسی صورت نہیں کر سکتا، یہی تو ہمارا آخری سہاراہے ، یہی تو ہماری قوت اور زندگی کی علامت ہے ، اس سے روگردانی کیسے کر سکتے ہیں؟ ناممکن ہے ۔
الحمداللہ سپریم کورٹ نے اپنے 10 اکتوبر کے فیصلے میں قادیانیت کے سارے غلط اور ناجائز حربوں پر پانی پھیر دیا ہے، جو واقعتا” اہل اسلام کی عظیم الشان کامیابی اور فتح و نصرت ہے، اور قادیانیت کی ایک بار پھر ذلت ورسوائی کا سامان ہے۔ ہمارے نبی آقا محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں ، انہی کی تعلیمات کی روشنی میں دلی ہمدردی کے ساتھ قادیانیوں کو ایک صائب مشورہ ہے کہ مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات کو چھوڑ کر دین اسلام کے سیدھے راستے پر آجائیں، یا پھر شرعی اور آئینی طور پر اپنی غیر مسلم اقلیتی حیثیت کو مان کر اپنے حقوق کا تحفظ کر لیں ورنہ دنیا و آخرت میں اپنی ذلت ورسوائی کے طوق کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔
ریکارڈ کی درستگی اور ایمان کی تازگی کی خاطرسپریم کورٹ کا فیصلہ پیش خدمت ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف متعلقہ پیرا گراف ہی پیش کئے جا رہے ہیں ۔ فیصلے کے پیراگراف نمبر ایک میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’’ اس عدالت کے پاس ’’دوسری نظرثانی‘‘ کا اختیار نہیں ہے۔ اس لئے یہ تصور نہ کیا جائے کہ اب جو فیصلہ جاری کیا جا رہا ہے یہ دوسری نظرثانی ہے یہ وضاحت بھی کی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ تصحیح کے لئے دی گئی درخواست پر دیا جا رہا ہے اور اب غلطیوں کی تصحیح کے بعد اسی کو عدالت کا فیصلہ تصور کیا جائے گا اور اس کے بعد حکم نامہ مورخہ 6فروری 2024ء اور نظرثانی فیصلے مورخہ 24 جولائی 2024ء کی کوئی قانونی حثیت نہیں رہتی اور اسے واپس لیا جاتا ہے۔ ‘‘ فیصلہ کی شق نمبر2 میں ان تمام علماءکرام کے نام ہیں جنہیں سننے کی استدعا عدالت نے کی تھی، شق 3 میں ان علما کا ذکر ہے جنہوں نے عدالت کی معاونت کی، شق4 میں علما ء کی آرا ءکا تذکرہ ہے اور شق5میں عدالت کے مختصر فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ شق 6 میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے کی تفصیلی وجوہات لکھی ہیں ۔فیصلے کے مطابق ’’ جب یہ مقدمہ پہلے سنا گیا تھا، تو ہمیں ’تفسیر صغیر‘ یا اس کے مصنف کے بارے میں علم نہیں تھا۔ اسی لیے فیصلے میں نمایاں غلطی ہوئی۔
(جاری ہے)
اِنَّ شانِئَکَ ھوَالابتر۔۔۔1
مناظر: 733 | 13 Oct 2024