اسلام آباد ۔
جنگ اور دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی سینیئر اور سمجھ بوجھ رکھنے والے صھافی ہیں جو عموماً زمانے کے شور کا ساتھ دینے کے بجائے حقائق کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں لیکن جنرل فیض پر فرد جرم کے بعد اوپر نیچے آنے والی ان کی دو سٹوریوں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ انصار عباسی نے ہی لکھا ہے ، دونوں سٹوریوں کے درمیان تضادات اور صحافتی ، واقعاتی نوعیت کی غلطیاں اتنی نمایاں ہیں کہ کوئی مبتدی کرے تو شائد جواز بھی بنے لیکن انصار عباسی کو یہ زیب نہیں دیتا ۔ ان کی دوسری سٹوری بہے سے سوالات کو جنم دیتی دکھائی دے رہی ہے ۔ انصار عباسی کا دعویٰ ہے کہ ان کی تحریر “ذرائع” پر مبنی ہے، لیکن ان ذرائع کی شناخت ابہام کا شکار ہے کہ یہ فیض حمید کےخاندانی ذرائع ہیں یا فوجی ذرائع ۔ اس کے پیچھے بے شمار قیاس آرائیاں رپورٹ کی ساکھ اور ثقاہت پر سوالیہ نشان لگارہی ہیں اور صحافی کی کریڈیلبٹی کو بھی مجروح کر رہی ہیں ۔یہ رپورٹس ریٹائرڈ جنرل پر عائد کردہ فرد جرم کے الزامات کی شدت کو کم کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ایک بونڈھی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ دو دن میں دو متضاد داستانیں کون تسلیم کر سکتا ہے ؟
حیرت ہے ایک صحافی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ذرائع کے نام پر ابہامات پیدا کرے اور جرم سے انکار اور اس کا جواز گھڑنا شروع کردے ، سٹوری کا بیانیہ ہی یہ بتانے کو کافی ہے کہ یہ خبر نہیں بلکہ سیاسی بیانیہ ہے ۔ مثال کے طور پرسیاستدانوں کے ساتھ فیضکے رابطوں اور بات چیت کا یہ جواز شائد فیض نے بھی نہ سوچا ہو جو موصوف پیش کر رہے ہیں کہ یہ نوکریوں کے حصول کے لیے تھے یا جاننے والوں کے لیے انتخابی ٹکٹ رابطے کئے گئے تھے ۔ اب یہ معلوم نہیں وہ فیض کو فیض یاب کرنے کی کوشش میں ہیں ، یا کسی چہیتے سیاستدان کی وکالت کی کوشش کر نے میں مصروف ہیں ۔ موصوف کا یہ شوق صحافت اور صحافتی ثقاہت کے لئے بدترین طور پر نقصان دہ لگتا ہے۔ جنرل فیض اس وقت فوجی حراست میں ہیں،کہانی کا وقت اور اس کی بنیاد انتہائی کمزور اور اس پر یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے ، سوال یہ ہے کہ جنرل فیض تو فوج کی تحویل میں اس نے کیا کہا ؟ یہ صحافی صاحب کو کس نے بتایا ؟ سچ یہ ہے کہ انصار عباسی نے جو بھی لکھا یہ ان کا اچھا تخیل تو ہو سکتا ہے ، خبر نہیں ۔ تخیل بھی ایسا کہ جس کا پہلا حصہ دوسرے سے نہیں ملتا ،بلکہ ایک دوسرے کی تردید کرتا ہے۔ دوسری جانب یہ سب داستان معیاری قانونی طریقہ کار سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔
صحافتی اقدار کا تقاضہ ہے کہ قیاس آرائیوں کی بجائے حقائق تلاش کئے جائیں ۔رپورٹنگ کی بنیاد تخیل نہیں ہو سکتا ، ملزمان ہمیشہ جرم سے انکار کرتے ہیں ، یہ عام سی بات ہے، لیکن واردات کو ثبوت دیگر چیزوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن میںحالات وواقعات اور سیاق وسباق اہمیت رکھتا ہے اور یہ موصوف اس سب کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ لیفٹیننٹ جنرل ایف ایچ کے معاملے میں آئی ایس پی آر کہتا ہے کہ سیاسی امور میں جنرل فیض کی مداخلت خصوصاً9 مئی 2023 کی بدامنی کے ارد گرد ہونے والے واقعات کے ثبوت موجود ہیں ، وہاں اس طرح کی یاوہ گوئی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ آئی ایس پی آر متعلقہ اداروں کی مہینوں کی تحقیق کا نتیجہ بتا رہا ہے اور ہمارے سینیئر صحافی محض خیالی پلائو پکا کر اس کی تردید کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس رپورٹ کی وجہ سے جنگ گروپ اور انصار عباسی دونوں کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ہے اور انہوں نے ملکی اداروں کی کریڈیبلٹی متاثر کرنے کی کوشش کی ہے ۔