فطرت اپنی اکائی میں بڑی دلفریب اور کومل چیز ہے حسن کی یہ فطرت ہے کہ وہ پذیرائی کو نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کی پذیرائی کی جائے وہ ستائش کو اپنا حق سمجھتا ہے اور ایمانداری یہی ہے کہ وہ اس قابل ہے اس کی ستائش کی جائے جب آپ فطرت کے حسن کی ستائش کرتے ہیں تو وہ اپنے چھپے ہوئے خزانے آپ پر اشکار کر دیتی ہے ہم ذہنی طور پر بنجر تھے فطرت کی شایان شان ستائش نہ کر سکے تو فطرت نے بھی اپنا حسن ہم سے چھپا لیا غالب ہندوستان کی سر زمین پہ کیسے جوہر قابل گزرے ہیں ان کا شعر ملاحظہ کریں
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
آپ اس شعر کو فطرت، خدا، کائنات، نیچر جس بھی چیز پر ایمان رکھتے ہیں اس تناظر میں تشریح کر کے دیکھیں تو کیسا باریک اور گہرا شعر ہے فطرت چیزوں کو ٹھیک رکھنے پہ توجہ نہیں دیتی وہ اپنے حسن کی آرائش پہ مامور ہے اس کو دنیا میں کچھ بھی ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ دن رات اپنا منہ ماتھا ٹھیک کرنے میں مصروف رہتی ہے اگر آپ اپنے فن کے ذریعے اس کے حسن کی تعریف کرتے ہیں تو وہ آپ سے خوش ہو کر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیتی ہے تو اس سے آپ کی آنکھیں منور ہوتی ہیں آپ کو اس کا صلہ ملتا ہے فطرت دنیا کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنے عشق میں مبتلا ہے نرگس کے پھول کی طرح اپنے رخ سے باہر کے منظر پر دھیان نہیں دیتی اس کو اپنی آرائش سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ کوئی اور کام کرے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ فطرت کے حسن کو پہچان کر اپنے فن کے ذریعے اس کی پذیرائی کریں پھر دیکھیں فطرت آپ کو کیسے اپنے خزانوں سے نوازتی ہے
بد قسمتی سے ہمارے سماج میں آرٹ، مصوری ،مجسمہ سازی، فوٹو گرافی، شاعری، باغ بانی، ادب جیسے نفیس کاموں کو دوسرے درجے کی کوئی حقیر چیز سمجھ کر فراموش کر دیا گیا جو لوگ اپنے فن کے ذریعے فطرت کی ستائش کر رہے تھے ان کے فن پاروں پر قدغنیں لگیں، ان کی گردن زدنی ہوئی، ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیا گیا، ان کو زندہ جلایا گیا، ان کو زندان میں بند کر دیا ان کو زہر کا گلاس پینے پہ مجبور کیا گیا، ان کی تحریروں کو نذر آتش کر کے ان کے منہ پہ تھوکا گیا ان کی تصویروں پہ کالک مل دی گئی ہماری بے رخی کے سبب فطرت نے بھی اپنے چہرے پر نقاب کر لیا ہماری تنگ نظری گہری ہوتے ہوتے ہم اندھے ہو گئے اب آندھوں کا ایک انبوہ ہے جو تاریک راستے کی طرف گامزن ہے ہمیں اچھے شعروں سے زیادہ گالیاں یاد ہیں ہمارے موبائل فون کی گیلری نیوڈٹی سے بھری ہے ہم نے اجداد کی کتابیں ریڑی والوں کو بیچ کر ان الماریوں کی جگہ نئے صوفے لگا دیے
دنیا کی ہر قوم اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے جتن کرتی ہے جنگیں لڑتی ہے بلند و بالا عمارتوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتی ہے ادب تخلیق کیا جاتا ہے مصوری ہوتی ہے مجسمہ سازی میں زور ازمائی ہوتی ہے اور پھر ان تخلیقات کو محفوظ کر کے دنیا کے روبرو رکھ دیا جاتا ہے پھر یہ وراثت خود بخود نئی نسل کو منتقل ہوتی ہے ان کی ذہن سازی ہوتی ہے ان کو بتایا جاتا ہے کہ فنکار ہونا کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے ادب تخلیق کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے شاعری بڑی نفیس چیز ہوتی ہے سائنسدان بننا بڑی عظمت کی بات ہے فوٹوگرافی روشن دماغوں کا کام ہے ظاہر ہے جو تہذیب آرٹ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے وہ دیر پا ہوتی ہے
اتفاق سے چند روز قبل ڈورٹمنڈ شہر کی سیر کرتے ہوئے ایک آرٹ میوزیم وزٹ کرنے کا موقع ملا حیرت ہوئی ایک قوم اتنی بڑی جنگ سے گزرنے کے بعد بھی پورے قد کے ساتھ اپنے پیروں پر کیونکر کھڑی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ماضی کو فراموش نہیں کیا ان کی دیواروں پر ان کے فنکاروں کا تخلیق کردہ آرٹ محفوظ ہے شکر گزاری میں بڑی برکت ہے جب آپ کسی چیز کی قدر دانی کرتے ہیں فطرت آپ کو اس چیز سے مزید نوازتی ہے جو قوم اپنے فنکاروں کی عزت کرتی ہے اپنے شاعروں کی تصویریں گیلریز کی سفید دیواروں پہ لگاتی ہے اپنے ادیبوں کی کتابیں لائبریریوں میں رکھتی ہے وہ قوم پائندہ رہتی ہے ہم نے اپنی پرانی تاریخ کو مسح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاریخی عمارات کو منہدم کرنے سے لے کر کتابوں کو دریا برد کرنے تک ہم نے ہر وہ کام کیا جس سے فطرت ہم سے منہ موڑ لے ہم نے ہنرمندوں کی ہاتھوں کو عزت دینا اپنی توہین سمجھا، وقت کے ساتھ ہم تاریخ کے دھندلکے میں کھو گئے ہمارے دماغ بنجر ہوئے تاریکی نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا فن ہم سے روٹھ گیا، اب اندھیرے میں خود کو ٹٹولنے سے کچھ نہیں ہوگا ہمیں فطرت کی ستائش دبارہ کرنی پڑے گی ہمیں فن، آرٹ، ادب، مجسمہ سازی، مصوری، سائنس کو سینے سے لگانا پڑے گا اور اپنے گھروں میں نئے صوفوں کی جگہ وہ پرانی الماریاں دوبارہ لگانی پڑیں گی جن میں ہمارے اجداد کی کتابیں تھیں۔