تحریر : شکیل اختر
انڈیا میں سکھوں کے مذہبی اداروں اور سیاسی رہنماؤں نے فوج میں سکھوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روایتی پگڑی سکھوں کی مذہبی شناخت کا اہم جزو ہے اور اسے دبایا نہیں جا سکتا۔ انڈین فوج نے حال میں سکھ فوج کے لیے مخصوص بیلسٹک ہیلمیٹ خریدنے کا آرڈر کیا ہے۔
انڈین فوج میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور انھیں ان کی مذہبی روایات کے تحت ہیلمٹ پہننے سے ابھی تک اسثنیٰ حاصل تھا۔
وزارت دفاع نے 400 مییٹر کی دوری سے فائر کی گئی بلیٹ سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سکھ فوجیوں کے لیے مخصوص ساخت کے 12730 ہیلمٹ کی خریداری کے لیے ٹینڈر جاری کر دیا ہے۔ ان میں 8911 بڑے سائز کے ہیں اور 3819 ایکسٹرا بڑے سائز کے ہیں۔
فوج کی سکھ رجمنٹ، سکھ لائٹ انفینٹری اور پنجاب رجمنٹ میں سکھ فوجیوں کی بڑی تعداد ہے۔ سکھوں کو ان کی مذہبی روایت کوملحوظ حاطر رکھتے ہوئے ہیلمٹ سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ لیکن اب فوج نے دوسرے فوجیوں کی طرح سکھ فوجیوں کو بھی بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص ہیلمٹ خرینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہیلمٹ کے لیے ٹینڈر جمع کرنے کی آخری تاریخ 27 جنوری ہے۔ اور انھیں خریدنے کا فیصلہ اس کے بعد ہی کیا جانا ہے۔ انڈین فوج سکھوں کی مذہبی روایات بالخصوص پگڑی کے سلسلے میں بہت حساس رہی ہے۔
ہیلمٹ کا فیصلہ خطرناک حالات میں بہتر تحفظ فراہم کرنے کے نکتہ نظر سے کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لیے کافی صلاح ومشورے اور سیاسی سطح پر منظوری کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
سکھ گرودواروں کا انتطام دیکھنے والی شرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی کے صدر ہرجندر سنگھ دھامی نے وزیر دفاع کو لکھے گئے ایک خط میں ہیلمٹ کے فیصلے کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ایک سکھ فوجی کو اس کی پگڑی اتروا کر اس کی جگہ ہیلمٹ پہننے کا حکم دینا تاکہ اس سے بہتر تحفظ ہو سکے اس بات کا عکاس ہے کہ فیصلہ کرنے والے نہ سکھوں کی نفسیات اور نہ ہی پگڑی سے سکھوں کی گہری مذہبی وابستگی سے واقف ہیں۔
امرتسر میں جاری کیے گئے ایک بیان میں ہرجندر دھامی نے کہا کہ ’پگڑی محض ایک کپڑا نہیں ہے۔ یہ روحانی اور دینی اہمیت کے علاوہ سکھوں کی شناخت کی علامت بھی ہے۔ پگڑی سےسکھوں کی وابستگی سکھوں کے افتخار اور گروؤں کی تعلیمات پر عمل کرنے کی عکاس ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سکھ فوجیوں کو ہیلمٹ پہننے کے لیے مجبور کرنے کے فیصلے سے سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
سکھوں کے مقدس ترین مقام اکال تخت کے جتھے دار (سربراہ) گیانی ہر پریت سنگھ نے ہیلمٹ کے فیصلے کو سکھ شناخت پر حملہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت اور فوج سے اس فیصلے کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ پگڑی کو ہیلمٹ سے تبدیل کرنے کی کسی کوشش کو سکھوں کی شناخت کو دبانے کی کوشش سے تعبیر کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’دوسری عالمی جنگ کے دوران اسی طرح کی کوشش برطانوی حکمرانوں نے بھی کی تھی لیکن اس وقت بھی سکھوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔‘
پگڑی کسی سکھ کے سر پر 5-7 میٹر کا محض ایک کپڑا نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے گروؤں کے ذریعے دیا گیا تاج ہے۔ یہ ہماری منفرد شناخت کی علامت ہے۔‘
پنجاب کی سیاسی جماعت اکالی دل نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ پارٹی کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے کہا کہ ’حکومت نے سکھوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ سکھوں کی مذہبی شناخت پر حملہ ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘
سکھ مذہب میں پیروکاروں کے لیے پانچ چیز یں لازمی قرار دی گئی ہیں ۔ کیش یعنی سر اور داڑھی کے بال نہ کاٹنا، لکڑی کا کنگھا، ہاتھ میں پہننے والا کڑا یعنی سٹیل کا کنگن، تلوار نما کرپان، کشہرا یعنی زیر جامہ، پگڑی جسے مذہبی روایت میں دستار کہا جاتا ہے اسے کیش یعنی سر کے بال کا لازمی جزو مانا جاتا ہے۔
سکھ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے بیشتر ممالک میں آباد ہیں۔ ان میں فرانس کو چھوڑ کر تقریبآ سبھی ملکوں میں فوج میں سکھوں کو پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔ نئی نسل کے بہت سے سکھ مذہبی روایت کے برعکس سر کے بال کٹوانے لگے ہیں اور وہ پگڑی کا بھی استعمال نہیں کرتے۔
سکھ مذہبی روایت میں یہ بھی ہے سکھ مرد اپنے سر پر پگڑی اور خواتین دوپٹے سے اپنا سر ڈھانپیں۔ ہیلمٹ اور اس طرح کی کسی اور چیز سے سر ڈھکنے کو ٹوپی تصور کیا جاتا ہے، جسے پہننے کی ممانعت ہے۔
سنہ 1998 میں پنجاب ہائی کورٹ نے بائک چلانے والے صرف ان سکھوں کو ہیلمٹ سے استثنیٰ دیا تھا جو گری پہنتے ہیں ۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف شدید احتاج ہوا تھا۔
سنہ 2018 میں چندی گڑھ میں انتظامیہ نے بائک اور سکوٹر چلانے والے اور پیچھے بیٹھنے والی سکھ خواتین کے لیے ہیلمٹ لازمی قرار دیا تھا۔
لیکن سکھ مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی شدید مزاحمت کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔
(بشکریہ بی بی سی)