جمعرات‬‮   18   ستمبر‬‮   2025
 
 

یا ارض الحرم یافخر الزماں

       
مناظر: 207 | 18 Sep 2025  

عزت غیرت اور غیرت ہمت میں ہےاور بلاشبہ یہ فیصلےدماغ کےبجائےدل سےکئےجاتے ہیں وہ بھی سود وزیاں کاحساب رکھے بغیر، معرکہء حق بھی عقل کی پاسبانی سے آزاد ایسے ہی وقت میں کیاگیا عزت و غیرت کافیصلہ تھا،جو آج عالمی افق پر پاکستان کی قوت اور وقارکا پھریرا بن کر لہرا رہا ہے۔بلاشبہ پاکستان اچانک سعودیہ کی آنکھ کا تارہ نہیں بن گیا، اس نے یہ مقام آپریشن بنبان مرصوص میں اپنی دفاعی صلاحیت اور ڈپلومیسی سےحاصل کیا ہے۔یہی سبب ہےکہ ٹرمپ ملاقاتوں پر مجبور ہوا اور نیتن یاہو بھی اب دوبار پاکستان کا نام لےچکا ہے۔ ایسےمیں اپنے کیوں نہ قریب آتے،محمد بن سلیمان جوہری کی نظر رکھنے والے راہنما کی شہرت رکھتے ہیں، بہت دور اندیش اور کھُلے ذہن کا مالک انسان۔ اسی نظر سے وہ آج کے پاکستان کو دیکھ رہا ہے اور یہ معاہدہ ایک جانب محمد بن سلمان کی بصیرت اور دور اندیشی کی دلیل ہے تو دوسری جانب پاکستانی قیادت کی محنت اور بیدار مغزی کا ثمر۔ گذشتہ دو سال میں فیلڈجنرل عاصم منیر نےبہت بھاگ دوڑکی، پاکستان کی معیشت ، دفاع اور عالمی مقام بحال کروانے کی خاطریہ سراسر ان کی ذاتی کاوشیں ہیں۔ ایسا ملک جو مفاداتی اور سازشی ٹولے کے کرتوتوں کے سبب ڈیفالٹ ہونےکی سرحد پر کھڑا تھا اس کو بچا کر نکالا ہے، اس کےساتھ ساتھ وزارت خارجہ کی کاوشیں ہیں کہ آج امریکا ہم سے خوش ہے، ایران شکرگزار ہے، سعودیہ ہم سے دفاعی معاہدہ کر رہا ہے، روس اورچائنہ کے ہم ساتھی ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ہیں۔ پوری دنیامیں نظر دوڑالیں ، ہےکوئی ایسا ملک جو بیک وقت دو مخالف قوتوں کے ساتھ چل رہا ہو؟ یہ محض اتفاق نہیں، شاندار ڈپلومیٹک فتح ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ آج بھارت عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

پاکستانی قیادت کی محنت اور نیت کا ثمر ہے کہ پاکستان اورسعودی عرب کےدرمیان دفاعی معاہدےسے پاکستان حرمین شریفین کے تحفظ کا شراکت دار بن گیا۔یہ اس معاہدے نےدونوں ممالک کے کئی دہائیوں پر محیط فوجی تعاون، مشترکہ مشقوں اور دفاعی تعلقات کو ایک باقاعدہ سٹریٹجک شراکت داری میں ڈھال دیا ہے۔اس معاہدے سے پاک سعودی تعلقات کاہی ایک نیا تاریخی باب شروع نہیں ہوا بلکہ عالم اسلام کے مشترکہ دفاع کی صدیوں پرانی امید بھی برآتی دکھائی دے رہی ہے،یہ رشتہ محض سفارت تک محدود نہیں بلکہ حرمین شریفین اور روضۂ رسولؐ کی وجہ سے عقیدت اور اعتماد کی گہری بنیادوں پر قائم ہے۔ مبصرین کے نزدیک پاک سعودی سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ دفاعی تعاون اور مشترکہ سلامتی میں انقلابی پیش رفت ہے،اس سے نہ صرف خطے میں امن اورعالمی سلامتی کو فروغ ملےگا بلکہ اقتصادی، سفارتی اور عسکری میدانوں میں بھی وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ کوئی معمولی امر نہیں بلکہ اس کا تعلق ریجنل شفٹ سے ہے ، پاکستان کی نو دریافت طاقت اور اعتماد سے ، اس کا کوئی تعلق پیسے اور تیل لینےسے نہیں ہے،پاک سعودی سٹریٹجک تعلقات سے ہے،اس ایک ہی جست نے مشرق وسطیٰ کی سیاست اور سکیورٹی کا پیرا ڈائم شفٹ کردیا ہے ،اب پاکستان اس خطے کی سکیورٹی میں برابر کا حصےدار ہے ، یعنی طاقت کے توازن کا ایک بھرپور کردار ،پاکستانی فوجی طاقت اورسعودی مالی ویژن سےخلیج کی سلامتی میں ایک نئے دورکاآغاز ہے۔ پاکستان ایک ایسےوقت میں قابل اعتماد سیکیورٹی پرو وائڈر کےطور پر سامنے آیا ہے کہ جب بہت سے عرب ممالک سےامریکا کے خلاف سوالات اٹھ رہے ہیں جن کی سیکیورٹی کا امریکا ضامن تھا۔اسرائیل نےجب سےقطر پرحملہ کیا ہے، عرب ممالک سے امریکا کے ضامن ہونے سے متعلق سوالات زیادہ اٹھ رہے ہیں، اس پورے معاملے پر امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔خلیجی ریاستیں دیکھ رہی ہیں کہ وہ اپنی سیکیورٹی کو کس طرح سے یقینی بنائیں۔ پاکستان اور سعودی عرب نے یہ معاہدہ کرکے سب کو راہ دکھادی ہے، یقینی طور پر یہ معاہدہ صرف دونوں ممالک کی سلامتی ہی کا ضامن نہیں بلکہ خطے اور دنیا میں امن کےحصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، موجودہ اور متوقع خطرات و چیلنجز کے تناظر میں یہ معاہدہ دفاع کو مضبوط بنائے گا۔

خلافت عثمانیہ کے زوال سے لمحہ موجود تک امت جن عسکری اور عبقری خصوصیات کی تلاش میں دست بہ دعا تھی،اس حوالہ سے قیام پاکستان اگرامید کی پہلی کرن قرار دی جائےتو پاکستان کا ایٹمی وجود اس کا بڑا سنگ میل اور یہ معاہدہ اس راہ میں نشان منزل کی حیثیت سے کم نہیں ہے ،اگر کہاجائے کہ یہ کامل ایک صدی کے سجدوں میں مانگی گئی دعائوں اور نیم شب اپنے رب کے حضور کی گئی مناجات کا جواب ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ شیاطین کی صفوں میں ماتم بپا ہے ، ایک جانب دہلی کا دل دہل رہا ہے تو دوسری جانب اڈیالوی فتنے نےاس کے خلاف شیطانی پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے ، مزے کی بات یہ کہ دونوں کے الفاظ بھی ایک ہیں اور ہدف بھی ایک ، ابھی تل ابیب اور اس کے گرو گھنٹال کا رد عمل آنا باقی ہے ، بہرحال امت کو نشاۃ ثانیہ کی جانب یہ پہلا قدم مبارک ہو۔ سوال یہ بھی ہے اٹھایاجا رہا ہے کہ اب امریکہ کیا کرے گا ؟ اس کے رد عمل پر عربوں کا طرز عمل کیا ہوگا ؟ بہترین جواب جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں دیاہے ۔ ’’ مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبائل رہتے تھے. میثاق مدینہ میں شامل ہونے کی وجہ سے مکمل شہری حقوق کے حامل۔ پہلے بنو قینقاع نے معاہدہ توڑا، پھر بنو نضیر نے اور آخر میں بنو قریظہ نے۔اگر معاہدے کی پاسداری کرتے تو آج عرب کے بیشتر تیل ریفائنریز کے مالک ہوتے۔امریکہ سارے مڈل ایسٹ کا بلا شرکت غیرے مالک و مختار رہا ،عرب باقاعدگی سے جزیہ دیتے رہے لیکن امریکہ نے دھوکہ دیا اور معاہدے کا ملبہ بحیرہ عرب میں غرق ہو گیا۔ اب بھلے اس کی کرچیاں اکٹھی کر رہا ہے لیکن عرب کچرا سجا کر نہیں رکھتے۔‘ایک دوسرا جواب وہ ہے جو صفی الدین الحلی نےلکھا :