جمعرات‬‮   9   اکتوبر‬‮   2025
 
 

سری لنکا کا سبق اور پاکستان کا المیہ

       
مناظر: 291 | 24 Sep 2025  

 

دنیا کی تاریخ میں وہ قومیں زندہ اور کامیاب رہی ہیں جنہوں نے مشکلات اور بحرانوں کے دوران درست فیصلے کیے۔ وہ قومیں جو وقتی مصلحتوں کا شکار ہوئیں یا سیاسی مفاد کے لیے ریاستی اصول قربان کرتی رہیں، وہ ہمیشہ زوال کا شکار ہوئیں۔ جنوبی ایشیا کا جزیرہ نما ملک سری لنکا اس حقیقت کی روشن مثال ہے۔ یہ ملک ایک وقت دہشت گردی، خونریزی اور خانہ جنگی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن آج وہاں امن ہے، ترقی ہے، اور خوشحالی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان، جو دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کی سب سے بڑی داستان رقم کر چکا ہے، اب بھی امن کے قیام کی جدوجہد میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر فرق کہاں ہے؟سری لنکا کی خانہ جنگی کا آغاز 1983 میں ہوا جب لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلام (LTTE) نے بھارتی ایما پر ریاست کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی۔ یہ بغاوت محض چند برسوں کی کہانی نہ تھی بلکہ پچیس برس سے زائد عرصہ سری لنکا لہو میں نہاتا رہا۔ شہروں میں بم دھماکے روزمرہ کا معمول بن گئے تھے، سرکاری تنصیبات، بازار اور اسکول دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بےدخل ہوئے اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی میڈیا میں سری لنکا کا نام سنتے ہی خانہ جنگی اور دہشت گردی کا تصور ذہن میں آتا تھا۔ یہ زخم اس قدر گہرا تھا کہ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی، سیاحت جو سری لنکا کی بڑی آمدنی کا ذریعہ تھی مکمل طور پر ختم ہو گئی، اور لوگوں کے دلوں میں خوف نے بسیرا کر لیا۔اس جنگ کی قیادت بھارتی تربیت یافتہ پربھاکرن کے ہاتھ میں تھی جو LTTE کا سربراہ تھا۔ اس نے ریاستی اداروں کے خلاف ایسا منظم نیٹ ورک قائم کیا جسے ختم کرنا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن 18 مئی 2009 کو پربھاکرن کی ہلاکت کے ساتھ اس طویل باب کا خاتمہ ہوا۔ سری لنکا کی فوج نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ اسی غیر متزلزل عزم نے دنیا کو حیران کر دیا۔ جس ملک کو برسوں سے ناکام ریاست کہا جا رہا تھا، وہ اچانک امن کے راستے پر گامزن ہو گیا۔
یہاں ایک اہم حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ سری لنکا کی اس کامیابی میں پاکستان کا بھی حصہ تھا۔ پاکستان نے سری لنکا کو نہ صرف فوجی ساز و سامان فراہم کیا بلکہ عسکری مشاورت اور تربیت میں بھی مدد کی۔ یہ تعاون اس وقت انتہائی قیمتی ثابت ہوا جب سری لنکا کے پاس دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے وسائل محدود تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مدد نے سری لنکا کی جنگ کو مختصر کرنے اور نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج اگر سری لنکا دہشت گردی سے پاک ہے تو اس کی پشت پر پاکستان جیسے دوست ملک کی قربانیاں بھی موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس پاکستان نے سری لنکا میں امن قائم کرکے دیا ، صرف مشاوت اور پلاننگ سے وہ خود اپنے ملک میں کیوں امن قائم نہ کر سکا؟ بلوچستان اور قبائلی اضلاع اب بھی بدامنی کا شکار ہیں۔ دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور خوف کی فضا اب بھی قائم ہے۔ آخر کیوں؟ جواب سادہ ہے،سری لنکا میں دہشت گردوں کے پیچھے کوئی سیاسی یا قوم پرست جماعت نہیں تھی ، وہاںکوئی قائد انتشار نہیں تھا، وہاں کی سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی ریاست کے دشمنوں کو اپنی سیاست کا سہارا نہیں بنایا۔ اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال بالکل الٹ ہے۔ یہاں کئی سیاسی جماعتیں اور نام نہاد رہنما دشمن کے ایجنڈے پر چلتے ہیں۔ وہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں، ان کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں، اور ریاستی اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر دھماکہ ہوا اور دہشت گردوں سمیت سویلین بھی مارے گئے، تو پوری دنیا کے میڈیا نے اسے دہشت گردوں کا ٹھکانہ قرار دیا۔ خود ٹی ٹی پی نے بھی تسلیم کیا کہ یہ ان کے لوگوں کی غلطی تھی۔ لیکن پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے فوری طور پر اس واقعے کا الزام فورسز پر ڈال دیا۔ گویا بھارتی میڈیا جو بیانیہ چلا رہا تھا، وہی بیانیہ یہ جماعت بھی دہرا رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسی ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا یہ ریاست کے ساتھ کھلا مذاق نہیں؟
دنیا کے ہر ملک میں دفاع اور سکیورٹی کے معاملات مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان میں ایک وزیر اعلیٰ کھلم کھلا یہ کہتا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ یہ رویہ نہ صرف ریاستی پالیسی کو کمزور کرتا ہے بلکہ دہشت گردوں کو نئی جان بخشتا ہے۔ مزید یہ کہ وکلا برادری میں شامل کچھ کالی بھیڑیں دہشت گردوں کی وکالت کرتی ہیں، عدالتوں سے ان کے لیے ریلیف لیتی ہیں، اور فورسز کے خلاف نعرے لگاتی ہیں۔ یہ منظر دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتا جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہو۔اصل المیہ یہ ہے کہ ماضی میں آٹھ ہزار ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو واپس لانے اور سو کے قریبدہشت گردوںکو جیلوں سے رہا کرنے جیسے اقدامات ریاستی سطح پر کیے گئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم، صدر، وزیر اعلیٰ اور ایک جرنیل کا کردار بھی اس میں شامل رہا۔ مگر افسوس کہ آج تک ان کے خلاف اس سلسلہ میں کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔ جب دہشت گردوں کو معافی ملتی ہے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو عوام یہی سمجھتے ہیں کہ ریاست کمزور ہے اور دہشت گرد طاقتور۔ یہی کمزوری دہشت گردی کو نئی توانائی دیتی ہے۔پاکستان کے لیے اب یہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہے کہ آیا وہ سری لنکا کے تجربے سے سبق سیکھے گا یا پھر اسی طرح خون کے دریا عبور کرتا رہے گا۔ حل بہت واضح ہےکہ دہشت گردی کے خلاف نرم رویہ ترک کرنا ہوگا۔ سہولت کار چاہے سیاستدان ہوں، وکلا ہوں یا کوئی اور بااثر فرد، انہیں جب تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جب تک امن قائم نہیں ہوگا، سرمایہ کاری اور خوشحالی کے خواب حقیقت نہیں بنیں گے۔
سری لنکا نے اپنے زخموں سے سبق سیکھا اور سخت فیصلے کیے۔ وہاں کسی نے دہشت گردوں کو سیاسی پناہ نہیں دی، کسی نے ان کے بیانیے کو اپنے ووٹ بینک کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اسی وجہ سے وہاں امن قائم ہوا اور آج وہاں ترقی کے راستے کھلے ہیں۔ پاکستان کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ نرمی اور مصلحت پسندی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ یہ وہ وقت ہے جب ریاست کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔قوم کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑی ہے یا ان سیاستدانوں کے ساتھ جو دشمن کے بیانیے کو دہراتے ہیں۔ عدلیہ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ریلیف دے گی یا قوم کو انصاف۔ میڈیا کو بھی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ سچ دکھائے گا یا پروپیگنڈے کا حصہ بنے گا۔ جب تک یہ فیصلے نہیں ہوں گے، دہشت گردی کا عفریت ختم نہیں ہوگا۔سری لنکا کا سبق بالکل واضح ہےکہ سخت فیصلے کریں اور قوم کو امن دیں۔ پاکستان کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ نرمی چھوڑ کر وہی راستہ اپنائے جس نے سری لنکا کو نئی صبح دی۔ یہی راستہ پاکستان کو بھی خوشحالی اور امن دے سکتا ہے۔