سوال یہ ہے کہ پسنی پورٹ پر عالمی میڈیا میں سازشی رپورٹ کا مقصد کیا ہےاور پس منظر کیا ہے ؟فنانشل ٹائمز جیسا مہنگا جریدہ جس کے صفحہ اول پر صرف 20 سنٹی میٹر جگہ کی قیمت 55ہزار ڈالر یعنی ایک کروڑ 41لاکھ 91ہزار روپے بنتی ہے ، اس کی ٹائٹل سٹوری بے مقصد تو ہو نہیں سکتی۔ایک بارپڑھتے ہی کوئی ابہام نہیں رہتا کہ یہ ایک گھڑی ہوئی داستان ہے،جس میں رائی کا پہاڑ بناتے ہوئے نہ صرف مرضی کے رنگ استعمال کئے گئے ، بلکہ کہانی کو مرضی کے موڑ اور رخ بھی عطا کئے گئے۔‘‘سوال یہ ہے کہ کیوں ؟پیشہ وارانہ صحافتی اصولوں کی کسوٹی پر اس قدر کمزور اور غیر معیار ی سٹوری جو پہلی نظر میں ہی کسی خاص ایجنڈے کا پتہ دیتی ہےاسے مغربی دنیا کے ان بڑے میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے اٹھانا جہاں تجزیہ نگار بھارتی ہے یا ایڈیٹر ، اور دنیا کے مختلف ممالک کے ان اداروں میں ایک جیسی زبان اور اشارے، یہ سمجھانے کو کافی ہیں کہ دال میں کچھ کالا نہیں، پوری دال ہی کالی ہے ۔ یہ سٹوری ان عالمی سازشیوں کی جانب سے گھڑی اور اچھالی گئی ہے جن کا مقصد پاکستان کے مفادات پر حملہ اور اسے معاشی نقصان پہنچانا ہےاو یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔1991سے1994تک گوادر پر بھی ایسا ہی پروپیگنڈہ پھیلایاگیا تھا’’ گوادر امریکہ کو فروخت کردیا گیا ‘‘، کبھی کہا گیا ’’امریکہ گوادر میں ایران اور چین کے خلاف اڈے بنا رہا ہے،‘‘ مقصد صرف یہ کہ پاکستان جب گوادر پر کام شروع کرے تو اس کی راہ میں پروپگنڈے کے اتنے کانٹے بچھا دئے جائیں کہ ،چنتے چنتےانگلیاں فگار ہوجائیں ۔سب سازشیں ناکام ہوئیں،گوادر کی تعمیر وترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگا تو بلوچستان میں دہشت گردی شروع کروادی گئی۔
رپورٹ کے پیشہ وارانہ پوسٹ مارٹم سے پہلے اس کی ٹائمنگ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سازش ایسے وقت میں رچائی جا رہی ہے کہ جب پاکستان اپنے معدنی ، جغرافیائی اور تزویراتی وسائل کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے اور پوری دنیا کو اپنے معاشی مفادات کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش میں کامیابی کے قریب دکھائی دے رہا ہے۔ ایک جانب سی پیک کا فیز ٹو شروع کرنے جا رہا ہے ،روس اور وسط ایشیاء کو گوادر کے راستے گرم پانیوں تک رسائی دینے کا معاہدہ کیا جا چکا، پاک ایران اقتصادی ، معاشی اور تزویراتی تعاون کے نئے در وا ہونے کو ہیں ، اور سب سے اہم یہ کہ پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بعد اب اقتصادی راہداری کے منصوبے پر حتمی فیصلے ہونے جارہے ہیں ، ایسے میں یہ سمجھنا قطعی مشکل نہیں کہ اہم سٹریٹجک پورٹ امریکہ کو دینے کا شوشہ چھوڑ کر اور اسے امریکی اڈے سے تشبیہ دیتے ہوئے چین اور دیگر کے لئے خطرات اور خدشات کی ڈفلی کون بجا رہا ہے اور کیوں بجا رہا ہے ؟ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور بینی فشری کون ہو سکتا ہے؟ مقصد صاف ظاہر ہے ،سازشی ماحول پید اکرکے پاکستان امریکہ معدنیاتی معاہدوں کے خلاف نفرت پیدا کرنااور ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرنا، ابھی چند دن کی بات ہے اسی جھوٹی داستان کو لے کر تحریک انتشار کیسے سیاپا ڈالتی ہے ،دیکھنے کا منظر ہوگا، دوسرا مقصد دوست ممالک کو یہ باور کروانے اور ڈرانے کی کوشش کہ پاکستان نے ان کے مفادات کا امریکہ سے سودا کرلیا ہے۔پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس باریک واردات کے پردہ دشمن کے علاوہ اور کون کون ہو سکتا ہے۔
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
صحٓافتی پیشہ وارانہ اصولوں کی کسوٹی پر پرکھیں تو اس داستان کے غلط ہونے کے سارے ثبوت اس کے اندر ہی موجود ہیں۔ ایک جانب اس خیال کو ’’نجی تصور‘‘ قرار دیا جارہا ہے تو ساتھ ہی ذمہ داری حکومت اور فیلڈ ماشل پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اگر یہ کسی کا نجی خیال ہے تو ریاست کا کیا تعلق ؟ ۔ خبر کے جھوٹا ہونے کو یہی کافی ہے کہ ’’آرمی چیف کے مشیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے قاری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، حالانکہ آرمی چیف کامشیر ہے ہی نہیں ۔ اخبار بار بار اسے نجی آئڈیاکہتاہےاورساتھ ہی اسے آرمی چیف کے ایجنڈے سے جوڑ دیتا ہے،یہ سازشی بیانیہ نہیں تو اور کیا کہا جائے؟مزید یہ اس ’’نجی تصور‘‘ کی تصدیق کے لئے وائٹ ہاؤس کے کسی سینئر عہدیدار سےجواب مانگا جا رہا ہے،گوکہ ایک غیر موجود تجویز کی سرکاری سطح پر تصدیق طلب کرنابذات خوداحمقانہ اور غیر پیشہ وارانہ حرکت ہے،دوسری جانب عجیب تضاد بلکہ عیاری کہ آرمی چیف کے نام نہاد مشیر سے یہ ساری رام کہانی منسوب کی گئی لیکن اس آرمی کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر سے تصدیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ تماشہ نہیں کہ الزام پاکستان آرمی پر اور موقف وائٹ ہائوس کا، یہ کون سا صحافتی اصول ہے ؟
فرض کیجئے کہ پاکستان امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی معاہدہکرتا بھی ہےتو اعتراض کیوں؟ واویلا کس بات پر ؟ اگر امریکہ سے معدنیات یا کسی بھی دوسرے معاملہ میں کوئی تجارتی اقتصادی حتیٰ کہ دفاعی حوالے سے بھی کوئی معاہدہ اگر ہوتا ہے،تو اس سے پاکستان کے دیگر دوست ممالک خصوصاً چین،روس اور ایران کے مفادات کو کیا،؟کیوں؟ اور کیسے خطرہ ؟ حیرت انگیز نہیں کہ بھارت چین کے ساتھ تجارت کرتا ہے، روس سے رابطے رکھتا ہے، امریکہ سے قربت بڑھاتا ہے، ایران اور اسرائیل سےتعلقات برقرار رکھتا ہے تو اسے اس کی Strategic خودمختاری اور ڈپلومیٹک Diversity کہا جاتا ہے، پاکستان کے معاملہ میں صرف نجی تجاویز ہی قابل اعتراض قرار پاتی ہیں ، کیوں بھئی ؟ دشمنوں اور دوستوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان ہمیشہ سے اپنے دوستوں کے درمیان توازن رکھنا بھی جانتا ہے اور دوستوں کے مفادات کے تحفظ کا بھی تجربہ رکھتا ہے ۔ نصف صدی پر مشتمل ایران سعودی جنگ اس کی بہترین مثال ہے کہ دونوں سے دوستی میں سر مو بھی فرق نہیں آیااور جب ایران اور قطر پر اسرائیلی حملہ ہواتو پکار سے بھی پہلے ان دوستوں کی مدد کوپہنچنے والا پاکستان ہی تھا ۔آج اگر چین ، امریکہ ، روس، سعودی عرب اور ایران بیک وقت پاکستان پر اعتماد کر رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی ان کا یہ یقین ہے کہ پاکستان توازن کی قوت ہے۔ ایسے پروپیگنڈے پاکستان کی راہ ماضی میں روک سکے ہیں نا آئندہ روک سکیں گے، قطعاً نہیں۔جس طرح سی پیک کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ معدنیاتی معاہدے کامیابی سے کئے جارہے ہیں،اسی طرح ساحلی پٹی کے وسائل سے لے کر دیگر تمام معاشی امکانات پر بھی اپنے مفادات اور وسیع تر تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے جب ،جو مناسب سمجھے گا،پاکستان فیصلہ کرے گا۔ایک سے زیادہ پاکستان کے دوست ممالک بلکہ ایک دوسرے کے دشمن اور مخالف ممالک کے ساتھ بھی بیک وقت توازن کو قائم رکھتے ہوئے ، معاہدے کئے جا سکتے ہیں ،اور کئے جانے چاہئیں ۔
پسنی پورٹ پر سازشی رپورٹ
مناظر: 726 | 6 Oct 2025
