جمعہ‬‮   10   اکتوبر‬‮   2025
 
 

پنجاب کی ٹیل پر “فرینڈلی فائرنگ” کا بڑا معرکہ

       
مناظر: 523 | 10 Oct 2025  

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے ذاتی دلچسپی لینے کے بعد پنجاب کی ٹیل پر ن لیگی سابق ارکان اسمبلی اور ضلعی بیوروکریسی کے درمیان ہونے والی سنگین جھڑپ یا “فرینڈلی فائرنگ” کا معاملہ پرامن انداز میں نمٹا دیئے جانے کی اطلاعات ہیں، یہ افسوسناک واقعہ 20 ستمبر 2025 کو دن 12 بجے کے قریب پیش آیا، وقوعہ کی ایف آئی آر نمبری 1079/25 تھانہ سٹی اے ڈویژن رحیم یارخان کے مطابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل و ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی رحیم یار خان محمد عرفان انور نے پولیس اسٹیشن سٹی “اے” ڈویژن میں جمع کرائی گئی اپنی تحریری درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ 20 ستمبر 2025 کو دوپہر تقریباً 12 بجے وہ اپنے دفتر میں سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے کہ اسی دوران سابق ایم این اے میاں امتیاز احمد، سابق ایم پی اے محمود الحسن چیمہ اور ان کے ہمراہ تقریباً 80 سے 100 مسلح افراد ان کے دفتر میں آ دھمکے جن میں ثاقب وڑائچ، طارق وڑائچ ولد اعجاز وڑائچ، توقیر خان (سابق کونسلر)، میاں عمیر (میاں امتیاز کا بھانجا)، میاں ساجد منظور، (عرفان)علی شیر ولد چوہدری علی شیر چک نمبر 123پی ، میاں منصور خالق (جو اس وقت نشے کی حالت میں تھا) اور مخدوم نعمان شامل تھے، محمد عرفان انور کے مطابق ان تمام افراد نے، جو جدید ہتھیاروں سے لیس تھے، سرکاری دفتر میں داخل ہوکر عملے کو زد و کوب کیا، توڑ پھوڑ کی، فرنیچر اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا، سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنایا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور دفتر کا محاصرہ کرکے کئی گھنٹوں تک سرکاری کام معطل رکھا۔
ایڈمنسٹریٹر بلدیہ رحیم یارخان کی انگریزی میں لکھی یہ پوری درخواست ایف آئی آر متن کا حصہ بنا دی گئی جس میں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سارا تنازع اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے میاں امتیاز احمد کے غیر قانونی مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا جن میں غیر منظور شدہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں، قبضہ مافیا کے تحفظ، ناجائز پلازوں اور قیمتوں پر اثراندازی وغیرہ شامل تھے، اس پر میاں امتیاز اور ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور دفتر پر دھاوا بول دیا۔ بعدازاں محمود الحسن چیمہ سابق ایم پی اے بھی وہاں پہنچے اور مزید لوگوں کو اکسانے کے ساتھ ساتھ قتل اور تشدد کی مزید دھمکیاں دیں۔

یہ مقدمہ سنگین دفعات کے تحت درج کیا گیا جن میں
دفعہ 440 (نقصان پہنچانا)، 353 (سرکاری ملازم کو ڈیوٹی سے روکنے کیلئے حملہ یا مزاحمت)، 186 (سرکاری کام میں رکاوٹ)، 506-B (قتل کی دھمکیاں دینا)، 148 (فساد کے دوران مسلح ہونا)، 149 (اجتماعی جرم)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 427 (املاک کو نقصان پہنچانا)، اور پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کی دفعہ 16 شامل ہیں۔ دفعہ 121 (ریاست کے خلاف بغاوت یا جنگ) اور دفعہ 506-B (جان سے مارنے کی دھمکی) سنگین نوعیت کی ہیں جن کی سزا عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد ن لیگی سابق ارکان اسمبلی نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے خلاف ایف آئی آر کا اندراج روکنے اور ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کیخلاف کرپشن اور غنڈہ گردی کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی اور وقوعے کے فوری بعد ایک دھواں دھار پریس کانفرنس منعقد کرکے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد عرفان انور پر سنگین الزامات عائد کیئے، 24 گھنٹے تک فریقین میں “زور آزمائی” جاری رہی اور اگلے روز ن لیگی ارکان اسمبلی کیخلاف ایف آئی آر درج ہو گئی، دونوں سابق ارکان اسمبلی میاں امتیاز احمد اور چوہدری محمود الحسن چیمہ اور دیگر ملزمان کو قبل از گرفتاری کی عبوری ضمانتیں کروانا پڑیں، جن میں عدالت نے پہلے 7 اکتوبر تک اور اب 14 اکتوبر تک توسیع کر دی ہے۔

2 طاقتور ارب پتی حکومتی سابق ارکان اسمبلی کیخلاف اس ایف آئی آر کے اندراج سے ہلچل مچ گئی۔ ن لیگ کے سابق دور حکومت میں میاں امتیاز احمد پورٹ اینڈ شپنگ کے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بھی رہے ہیں، چونکہ دونوں طرف طاقتور کھلاڑی تھے اس لیئے معاملہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تک پہنچا اور آخر کار فریقین نے اس فرینڈلی فائرنگ کو ختم کرنے پر اتفاق کر لیا اور اطلاعات یہ ہیں کہ 14 اکتوبر کی اگلی پیشی پر ایف آئی آر کے اخراج کی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی جائے گی اور پھر راوی دوبارہ چین ہی چین لکھنے لگے گا،
تاحال یہ واضح نہیں کہ صلح کن شرائط پر ہوئی ہے؟ کیا غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور غیر قانونی کمرشل پلازوں کیخلاف “بلا امتیاز” آپریشن جاری رہے گا کہ جس کو رکوانے کیلئے ن لیگی سابق ارکان اسمبلی کارکنوں اور لینڈ مافیا کا جتھہ لے کر میونسپل کمیٹی کے دفتر پر چڑھ دوڑے؟ یا پھر اسے مستقل بنیادوں پر روک دیا جائے گا؟ ایک تیسرا آپشن یہ ہے کہ آئندہ کیلئے آپریشن “امتیازی” ہو گا، یعنی دونوں حکومتی سابق ارکان اسمبلی کی آشیر باد والوں کیخلاف آپریشن نہیں کیا جائے گا اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کیخلاف قانون اپنی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا،
یہ افسوسناک واقعہ مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ پر بھی اثر انداز ہوا ہے کیونکہ اس دوران خود ن لیگی سابق ارکان اسمبلی نے پریس کانفرنسیں کر کر کے اپنی ہی وزیر اعلیٰ کے لگائے ہوئے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیخلاف کرپشن اور لاقانونیت کے سنگین الزامات لگائے، دوسرا نقصان یہ ہو گا کہ تجاوزات کیخلاف آپریشن کی اخلاقی حیثیت بھی متاثر ہو گی، ایک اور سینہ گزٹ یہ بھی چل رہی ہے کہ یہ واقعہ اگلے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی اثر انداز ہو اور ضلعی ہیڈکوارٹرز سے ن لیگ اپنے امیدوار تبدیل کر کے ان “پولیٹیکل ہیوی ویٹس” کا پینل سامنے لا سکتی ہے، نئے ممکنہ پینل میں قومی اسمبلی کیلئے میاں عامر شہباز، شہر کی صوبائی نشست پر چوہدری جعفر اقبال اور چکوک کی صوبائی نشست پر حاجی محمد ابراہیم کا نام تجویز کیا جا رہا ہے، یہ کہا جا رہا ہے کہ جھگڑالو اور جارحانہ رویوں کی جگہ شفقت و محبت کا فطری مزاج رکھنے والے اس پینل سے ن لیگ اپنی کھوئی ہوئی یہ نشستیں باآسانی دوبارہ حاصل کر سکتی ہے، واللہ اعلم باالصواب