ہفتہ‬‮   18   اکتوبر‬‮   2025
 
 

لڑکپن کا رومانس !

       
مناظر: 840 | 18 Oct 2025  

میری نسل کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ کابل وقندھار کی سزمین ہمارا لڑکپن کا رومانس ہے ، شعور کی پہلی دستک کے ساتھ بندوق اٹھائی ، افغانوں کی آزادی کے لئے ، سوویت افواج کے مقابل جا کھڑے ہوئے ، پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے جہاد حریت سے بھی پہلے۔کوئی بابا حقانی کے کیمپوں میں،کوئی حزب اسلامی کے مراکز میں۔ جس عمر میں لڑکے بالے حسن وعشق کی داستانوں کے رسیا ہوتے ہیں ، عارض ورخسار پر اشعار کہتے اور حسن وعشق کے گیت سنتے ہیں ، ہم گولیوں، بموں ، سوویت طیاروں کی بمباری، زخمیوں کی چیخ وپکار اور نصف شب کی شہادت کے لئے مانگی دعائوں کے اسیر ہو چکے تھے۔ہمارا لڑکپن ، جوانی پکتیا ، پکتیکا ،خوست اور کابل وقندھار کے حسن پر فدا ہوگئی،اپنے گائوں کو جاتے راستے سے زیادہ افغانستان کے پہاڑوں کے کچی راہیں ازبر ہیں ، جہاں آج بھی روح بھٹکتی ہے۔ سرزمین کابل وقندھار کے نام پر اس بڑھاپے میں بھی دل دھڑکتا ہے کہ کتنے ہی عزیز ازجان وہاں کی مٹی اوڑھ کر آسودہ خاک ہیں ، کتنے ہی ہیں جن کی مائوں کے لئے افغانستان کی سرزمین اولاد کی طرح مقدس ہے کہ ان کے جگر گوشے افغانوں کو روسیوں سے آزادی دلوانے گئے اور شہادت کی نیلم پری کے آغوش میں جا سوئے ۔ پھر منظر بدلا ، ہمارے یہ ممدوح باہم دست وگریباں ہوئے ، اقتدار کی لت نے حکمت یار اور مسعود کو ایک دوسرے کا دشمن بناڈالا ، بابا حقانی اور یونس خالص کی صلح جوئی اور مصالحت بھی ناکام ٹھہری تو اس بدامنی کی کوکھ سے سپن بولدک کے ملا عمر کی قیادت میں طالبان کا ظہور ہوا ۔ خانہ جنگی سے عاجز، معاشرتی برائیوں سے تنگ مدرسے کے مجاہد استاد ملا عمر مقامی سطح پر جدوجہد کرتے کب اور کیوں عالمی منظر پر ابھرے ؟ اور کس ایک واقعہ نے ان کے لئے ملک گیر قبولیت کی راہ کھولی؟متقی ، برادراور پاکستان کی نفرت میں پھنکارتے دیگر کرداروں کو شائد یاد بلکہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ سب بعد میں ، بہت بعد میں آئے ۔ راقم الحروف ان دنوں کابل میں تھا ، جب پاکستان کا ایک آزمائشی امدادی قافلہ ازبکستان جانے کی خاطر چمن سے افغان سرزمین میں داخل ہوا ،سپین بولدک سے تھوڑا آگے اسے مقامی وار لارڈ کے جتھے سے روک لیا ، بھتہ طلب کیا ، اطلاع ملنے پر بے نام مگر نیک طینت مجاہدین کے مقامی گروپ کا امیر ملا عمر شیر کی طرح حملہ آور ہوا ، وار لارڈ کو پچھاڑاپاکستان کے قافلے کو راستہ لے کر دیا اورا علان کردیا کہ آج کے بعد جس نے راستہ روکا ،یہی حال ہوگا۔ اس واقعہ کی کوریج ہوئی، لوگ حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کس تنظیم سے ہیں ؟ اسی تحیر کے عالم میں ایک عالمی ادارے کے رپورٹر نے لوگوں سے سوال کیا کہ تم کون ہو؟ تو سادہ لوح مجاہدین کا جواب تھا ، ’’زما طالبان دہ ‘‘ ہم طالب علم ہیں ، حقیقتا ً یہ لوگ طالب علم ہی تھے ، ملا عمر کے مدرسہ کے طالب علم ، اور یہی نام شہرت اختیار کرگیا ، جس کے ساتھ بعد میں تحریک کا لفظ شامل کرکے تنظیمی ڈھانچہ بنایا گیا ۔
کبھی یاروں سے ملنے کبھی صحٓافتی ذمہ داریوں کے سبب کابل وقندھار کےاسفار کی اب تعداد بھی یا دنہیں ، تاریخ کے اس اہم موڑ پر ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ ، ملا بورجان رحمۃ اللہ علیہ سمیت اس عہد کے ان روشن چراغوں کی زیارت سے آنکھیں منور ہوئیں کہ جنہیں دیکھ کر بلا شبہ قرون اولی کی یاد آتی تھی ، وہ آخر شب سجدوں میں رونےو الے ، وہ نیچی نگاہوں کے ساتھ اس عہد پر فتن میں بھی رحماء بینھم کی مثال اور اشداء علی لکفار کے پیروکار ، ان کا عہد پاکستان کی تاریخ کا واحد دور ہے کہ جب مغربی سرحد مامون تھی ، صرف سرحد نہیں افغان سرزمین پر جرائم کی شرح سفر ،اور پوست کی کاشت ختم ہوگئی تھی ۔ ایک امریکی صحافی ، جو بڑے ٹھنک ٹینک سے وابستہ تھی لاہور میں ملی ، کابل جانے کو بے تاب ، وجہ بتائی کہ ریسرچ کرنی ہے کہ خانہ جنگی کا شکار ملک میں جرائم کی شرح صفر کیسے ہوگئی ؟کیونکہ حکمران ملا محمد عمر مجاہد اللہ سے ڈرنے اور شریعت پر عمل کرنے والا عالم باعمل تھا ۔وہ کوئی صوفی گوشہ نشین نہیں بلکہ متحرک اور باخبر حکمران تھا ، جو اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ان کی لغزش پر کڑی سزا دینے سے گریز نہ کرتا، نتیجہ سامنے ہے ۔ پھر امریکی حملہ آورہوئے ، ایک عالمی سازش رچائی گئی ، پاکستان نے حکمت کی راہ لی ، پاکستانی نوجوان پھر طالبان کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ، یہ جو آج طعنہ زن ہے کہ ہماری تاریخ سوویت یونین اور امریکہ سے پوچھو ، اس سے کوئی پوچھے کہ ایک ہاتھ تمہاراتھا تو دوسرا ہمارا ، ایک کندھا تم نے دیا تو ایک ہم نے ، ایک گولی تم نے کھائی تو دوسرے میرے وجود میں پیوست ہوئی ، تم اس فتح کے تنہا وارث کیسے ہوگئے ؟ سوال اہم ہے کہ جن کی بنیاد پاکستان کے لئے راستہ کھلوانے کے لئے رکھی گئی، وہ آج پاکستان کے دشمن کیوں ؟ جواب بہت سادہ ہے ، یہ لوگ وہ نہیں ، ان کے ہم نام ہیں، بلکہ ان کے نام پر دھبہ۔ ہم نہیں کہتے ، ہم کون ہوتے ہیں ، الزام عائد کریں ، ہمیں کیا حق کہ کسی کی نیت اور ایمان کا فیصلہ کریں ؟ اپنی شناخت یہ خود کروارہے ہیں ، خود اعلان کر رہے ہیں کہ ’’ دیکھ لو ہمارا ملا عمر کی فکر سےکوئی تعلق نہیں ، قطعاً نہیں ۔‘‘ دہلی کے افغان سفارتخانے میں ملا عمر کے ہاتھوں مسمار کئے گئے بدھا کے مجسموں یعنی بتوں کے سائے میں متقی کی پریس کانفرنس، زبان حال سے یہ اعلان نہیں؟ کہ ، ملا عمر نے یہ مجسمے مسمار کئے تھے، ہم انہیں عزت دے رہے ہیں، ہمیں وہ نہ سمجھو ۔ ملا عمر وہ مرد مجاہد تھا ، جس نے درست یا غلط جب سمجھا کہ بت شکن بننا ہے تو پھر پوری دنیا ایک طرف ہوگئی مگر اس مرد قلندر کو جھکایا نہ جا سکا ، اور یہ نام کے متقی نا صرف بت فروش کہلائے بلکہ خواتین کو پریس کانفرنس میں نہ بلانے پر سوشل میڈیاکا احتجاج برداشت نہ کرسکے،خواتین کو صف اول میں بٹھا کر دوبارہ پریس کانفرنس کی اور اپنے کہے سے بھی مکر بھی گئے۔ کہاں وہ اور کہاں یہ ۔ دورہ دہلی نے ثابت کردیا کہ ملا عمر اور بابا حقانی کے طالبان شریعت کے پابند تھے، تو موجودہ برسر اقتدار دھڑا شرارت کا ، وہ بت شکن تھے تو یہ بت فروش ، وہ اسلام کے نمائندہ تھے ، یہ نسل پرستی اور دہشت گردی اور نفرت کے پیروکار۔ انہوں نے اسامہ سے عہد کیا تو جس طرح پورا کیا دنیا جانتی ہے ، یہ عہد کرتے ہیں اور مکرجاتے ہیں ، عہد سے پھر جانے والے اور باربارپھرجانے والے،قراآن کے حکم اورآقا محمدﷺ کی فرمان عال شان کی روشنی میں کیا ہیں ؟ وہی ان کی شناخت ہے ۔
کہتے ہیں ، ہمارا روس اور امریکہ سے پوچھو ، سوال یہ ہے کہ تم اپنا پروفائل بتائو کہ کہاں تھے ؟ یہی سوال بدھ کے روز عظیم بابا حقانی کے وارث خلیفہ سراج حقانی نے بھی اٹھایا ہےکہ ’’تم کہاں تھے؟ دوحہ میں خاندانوں سمیت ، یا پاکستان میں کونسل کونسل کھیل رہے تھے ؟ میدانوں میں تو ہم تھے ، یاد رکھو ، تم سے طاقتور اقتدار میں تھے ، نہیں رہے ، تم بھی نہیں رہوگے، ہم شہدا کی توہین نہیں کرنے دیں گے ۔‘‘ کم گو خلیفہ سراج الدین حقانی نے دوچار جملوں میں پوراڈی این اے بیان کردیا۔جس فتح کا یہ کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،وہ چال بازیوں سے نہیں جہاد سے ممکن ہوئی تھی اور جہا د کے میدانوں میں حقانی تھے یا پاکستانی۔
افغانستان ہمارے لڑکپن کا رومانس ہے ، کچی عمر کا عشق،اور پاکستان ہمارا گھر ہے ، ہماری جنت ، عشق بھولیں گے نا اپنی جنت کسی کو جہنم بنانے دیں گے ۔ اگر ہم افغانستان کی آزادی کے لئے جان لڑا سکتے ہیں تو سوچ رکھو پاکستان کے لئے کیا نہیں کر گزریں گے ۔
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن!