\
بدھ‬‮   26   ‬‮نومبر‬‮   2025
 
 

حکومت نے سقوط ڈھاکا سے سبق نہیں سیکھا، ’1971 کی طرز‘ پر طاقت چھینی، پی ٹی آئی کا الزام

       
مناظر: 211 | 25 Nov 2025  

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پیر کے روز موجودہ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ’1971 کا خفیہ منصوبہ‘ دوبارہ زندہ کر دیا ہے، پہلے دیدہ دلیری سے حقیقی منتخب نمائندوں کو نااہل کیا، پھر مسترد شدہ ناکام افراد کو دھوکے سے مسلط کر کے جعلی اکثریت کھڑی کی، اور آخر میں زبردستی اپنی حکومت کو طول دیا۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 مئی کے مقدمات میں سزا یافتہ پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی نااہلی کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات پر ردِعمل دیتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے حکمرانوں پر تاریخ کی ’سنگین ترین غلطیوں‘ کو دہرانے اور سقوطِ ڈھاکا سے کوئی سبق نہ سیکھنے کا الزام لگایا۔

سقوطِ ڈھاکا وہ سانحہ تھا، جو ’عوامی لیگ کے مینڈیٹ کے ظالمانہ انکار، منظم جبر، اور مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ ظالمانہ، سوتیلی ماں جیسے برتاؤ‘ کی وجہ سے پیش آیا تھا۔

انہوں نے اصرار کیا کہ ملک سیکیورٹی، معیشت، سیاست اور معاشرتی لحاظ سے شدید تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پرانی غلطیاں دہرا کر مختلف نتائج کی توقع رکھنے کے بجائے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور اصلاحی اقدامات کرے۔

شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ جس طرح عوامی لیگ نے ایک بھاری اکثریت حاصل کی تھی، اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی، مگر اسے ’آدھی رات کے بڑے انتخابی ڈاکے‘ کے ذریعے اپنے مینڈیٹ سے محروم کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف کمزور ’بہانوں‘ پر نااہلیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، ساتھ ہی انہیں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رکھا گیا، ایسا سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت مل سکے، تاکہ وہ ’ذاتی مفاد، جمہوریت دشمنی اور انتہائی متنازع آئینی ترامیم‘ منظور کروا سکے۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ موجودہ حکمران کیوں 1971 کے اسی تباہ کن ماڈل کو دہرانے پر تلے ہوئے ہیں، اور ان کے ’جذبہ حب الوطنی اور ملک کے لیے اخلاص‘ پر سنگین سوالات اٹھائے۔

شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ایسے کنٹرولڈ اور دھاندلی زدہ انتخابات کبھی بھی پی ٹی آئی یا اس کے بانی عمران خان کی مقبولیت کا حقیقی پیمانہ نہیں ہو سکتے، ایک ایسی مقبولیت جو اس وقت واضح ہو گئی تھی جب ان کے تمام سابق سیاسی حریف، ریاستی اداروں کی مدد سے ان کا راستہ روکنے کے لیے متحد ہو گئے تھے۔