\
پیر‬‮   15   دسمبر‬‮   2025
 
 

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

       
مناظر: 400 | 14 Dec 2025  

وطن عزیز کے ساتھ بھی کوئی الگ ہی معاملہ ہے کہ پون صدی سے جب بھی معیشت اٹھنے لگتی ہے ، کوئی آسیبی ہاتھ بروئےکار آتا ہے اور سب کچھ ملیا میٹ کر دیتا ہے ۔ اس بار تو شائد خاکم بدھن ملک ہی ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ تھا لیکن ، بھلی رہی کہ بر وقت تدارک ہوا اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی مہم پر آئے ، ٹولے کی رستگاری کا سامان ہوگیا اورملک بچ رہا ۔ اس آسیب نے کس قدر تباہی مچائی اور بعد از اقتدار کیا کیا سازشیں کیں ، اس کے تذکرے کا یہ موقع نہیں ،لیکن اسے بھولا نہیں جا سکتا ۔ چار سال کی محنت شاقہ کے بعد بالآخر عالمی اداروں کی جانب سے مثبت تاثر سامنے آنا شروع ہوا ہے۔اکتوبر میں عالمی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ میں کہا گیا’’ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں سب سے بڑی کمی دکھائی ہے۔بلومبرگ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی دنیا بھر کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر رہی ہے،صرف ترکیہ پاکستان سے آگے ہے۔گزشتہ 15 مہینوں (جون 2024 سے ستمبر 2025 تک) میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات میں 2200 پوائنٹس کی نمایاں بہتری آئی۔ یہ پاکستان کی پائیدار معاشی بہتری کا ثبوت ہے کیونکہ ملک وہ واحد معیشت ہے جس نے ہر سہ ماہی میں مسلسل بہتری دکھائی ہے۔اس کے برعکس جنوبی افریقہ، ایل سلواڈور اور دیگر ممالک میں بہتری بہت کم رہی جبکہ مصر، نائیجیریا اور ارجنٹائن جیسے ممالک میں خطرات مزید بڑھے ہیں۔یہ بہتری اس بات کی علامت ہے کہ سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔‘‘ اور اب آئی ایم ایف اور ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی گواہی بھی آگئی ہے ، لکھا ’’پاکستان میں شفافیت میں اضافہ اور کرپشن میں کمی ہوئی، ملکی معیشت زبوں حالی سے استحکام اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے این سی پی ایس 2025ء کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 66 فیصد پاکستانیوں نے بتایا انہیں کسی سرکاری کام کیلئے رشوت نہیں دینی پڑی، حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے معیشت کو مستحکم کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی معاشی استحکام کا سبب بنا، پولیس کے حوالے سے عوامی رائے میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا، یہ بہتری پولیس کے رویے اور سروس ڈلیوری کی عکاس ہے۔رپورٹ کے مطابق تعلیم، زمین و جائیداد اور ٹیکسیشن سے متعلق عوامی تاثر میں بھی بہتری آئی ہے، این سی پی ایس پاکستان میں بد عنوانی کا تاثر جانچنے کا پیمانہ ہے۔‘‘آئی ایم ایف جو ہمیشہ لٹھ کے کر پاکستان کے پیچھے پڑا رہتا ہے ، وہ بھی متاثر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کی رپورٹ کے الفاظ بھی گویا ، تپتے صحرا میں نخلستان جیسے ہیں ،’’ڈپٹی ڈائریکٹر نیگل کلاک نے کہا معاشی استحکام میں مدد ملی، معاشی ترقی کی شرح بہتر، مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔ سیلاب کے باوجود پاکستان پرائمری بیلنس کا ہدف حاصل کرنے کے لیے پرعزم رہا، سیلاب کے باوجود پاکستان نے ٹیکس اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھا۔ افراط زر کنٹرول میں ہے، مہنگائی کنٹرول کرنےکے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہدف حاصل کیا، پاکستان میں کیپٹل مارکیٹ کا فروغ ہوگا اور نجی شعبے کیلئے قرضوں کا حجم بڑھے گا۔‘‘

شبہ نہیں کہ آئی ایم ایف کا قرض ایک لعنت سے کم نہیں ،سیدھی سیدھی غلامی ہے ، جسے کوئی بھی خوشی سے گلے نہیں پہنتا ،یہاں تو اس پر ڈھول پیٹے جارہے تھے کہ اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے کچھ نہیں ملے گا ، قائد انتشار خم ٹھونک کہتا تھا کہ ’[بس پاکستان دیوالیہ ہونے ہی والا ہے ،‘‘ اور اس کے ایک چیلے سے نکشاف کیا کہ وہ کیوں پاکستان کی تباہی پر پر یقین ہے ، کہا ’’ ہم نے پاکستانی معیشت کی راہ میں اتنی بارودی سرنگیں لگا دی ہیں کہ ان سے سنبھالا نہ جائے گا ۔‘‘ بہر حال یہ موجودہ ارباب اختیار کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے دیوالیہ ہوتی معیشت کو دنیا کی دوسری بڑی ابھرتی ہوئی معیشت تک پہنچادیا ہےاور ہر روز اوپر کو جاتے کرپشن کے گراف کو نہ صرف روکا ہے ، بلکہ اس میں کمی کی گواہی عالمیا دارے دے رہے ہیں ۔ یقینی سی بات ہے کہ یہ منزل نہیں ، بلکہ یہ تو ابھی نشان منزل بھی نہیں ، البتہ آغاز سفر ہے ، اگر یہ رفتار رہی تو یقینا منزل بھی مل ہی جائیے گی ، لیکن اس کے لئے بہت کچھ بدلنا ہوگا ، بیوروکریسی کا رویہ ، عدلیہ کی رفتار ،اشرافیہ کی لوٹ مار کی خو، مفت بروں کی شاہی آسائشیں ، بے جا نمود ونمائش اور بہت کچھ ۔ سب سے ضروری چیز پالیسی کا تسلسل ہے۔ ارباب بست وکشاد کو چاہئے کہ اک بار ،سسٹم کا تسلسل چل لینے دیں ، ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجانے دیں ، معاشی بہتری اور کرپشن میں کمی کی عالمی رپورٹس سے امید کی جو شمع روشن ہورہی ہے ، اسے ضو فشاں ہوجانے دیں ، اس سب کے لئے واحد ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آسیبی سایوں سے ملک کو بچاکر رکھا جائے اور تسلسل کو قائم رکھنے کی کوشش کی جائے ، حکومتیں بھلے بدلیں ، مگر پالیسیاں چلتی رہیں تو ملک آگے بڑحتا چلا جاتا ہے ، جاپان کی مثال سامنے ہے ، جہاں کم ہی کوئی حکومت سال پورا کرتی ہے ، لیکن ملکی پالسیاں حکومتوں کے بدلنے سے متاثر نہیں ہوتیں ۔

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں

اب بھی خزاں کا راج ہے، لیکن کہیں کہیں

گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں، مگر

کچھ کچھ سحر کے رنگ پَرافشاں ہوئے تو ہیں

ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل

محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم

اب بےنیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں

اہلِ قفس کی صبحِ چمن میں کُھلے گی آنکھ

بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں

ہے دشت اب بھی دشت، مگر خونِ پا سے فیض

سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں….!