اٹلی کے ماہرِ ارضیات نے الپس کے پہاڑوں میں واقع اسٹیلیوو نیشنل پارک میں ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے، جہاں دو ہزار میٹر سے زائد بلندی پر تقریباً عمودی چٹان پر ہزاروں ڈائنو سارز کے قدموں کے نشانات ملے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ دریافت ٹرائیاسک دور سے تعلق رکھنے والے دنیا کے امیر ترین مقامات میں شمار کی جا رہی ہے۔
یہ نشانات شمالی اٹلی کے علاقے لومبارڈی میں واقع بوریو کے قریب بلند پہاڑی گلیشیئر وادی ویلے دی فریئلے میں پائے گئے ہیں، جو 2026 کے سرمائی اولمپکس (ونٹر اولمپکس) کے چند مقامات میں شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ نشانات تقریباً پانچ کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں بعض قدموں کی چوڑائی 40 سینٹی میٹر تک ہے اور ان میں پنجوں اور ناخنوں کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔
میلان کے نیچرل ہسٹری میوزیم سے تعلق رکھنے والے ماہرِ آثارِ قدیمہ کریستیانو دال ساسو نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ یہ اٹلی کے سب سے بڑے اور قدیم ڈائنو سارز فٹ پرنٹ مقامات میں سے ایک ہے، اور 35 سالہ کیریئر میں انہوں نے ایسا شاندار منظر کم ہی دیکھا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قدموں کے نشانات ممکنہ طور پر لمبی گردن والے سبزی خور ڈائنو سارز، جنہیں پلیٹیوسارس کہا جاتا ہے نے چھوڑے تھے۔
یہ نشانات 200 ملین سال سے زائد پرانے ہیں اس دور میں یہ علاقہ ایک گرم لاگون تھا جہاں ڈائناسور ساحلی علاقوں میں آزادانہ گھوما کرتے تھے اور کیچڑ میں ان کے قدموں کے نشان محفوظ ہو گئے۔
ٹرینٹو کے میوزیم سے وابستہ ماہرِ آثارِ قدیمہ فابیو ماسیمو پیٹی کے مطابق یہ نشانات اس وقت بنے جب زمین نرم تھی اور ٹیتھِس سمندر کے گرد پھیلے ہوئے وسیع ساحلی میدانوں پر کیچڑ موجود تھا۔
وقت کے ساتھ یہ کیچڑ پتھر میں تبدیل ہو گئی جس کے باعث قدموں کے نشانات میں انگلیوں اور یہاں تک کہ ناخنوں تک کی ساخت محفوظ رہ گئی۔
ماہرین نے بتایا کہ جب افریقی ٹیکٹونک پلیٹ شمال کی جانب بڑھی تو ٹیتھِس سمندر بتدریج بند اور خشک ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں سمندری تہیں مڑ کر الپس کے پہاڑوں میں تبدیل ہو گئیں۔
اسی عمل کے دوران وہ چٹانیں جو کبھی زمین کے ساتھ افقی تھیں، عمودی شکل اختیار کر گئیں۔
یہ فوسل شدہ قدموں کے نشانات ستمبر میں اس وقت سامنے آئے جب ایک وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہرن اور داڑھی والے گدھ کی تصاویر لینے کے دوران اس پہاڑی ڈھلوان تک پہنچا۔
میلان-کورٹینا 2026 اولمپکس آرگنائزنگ کمیٹی کے صدر جیووانی مالاگو نے اس دریافت کو قدرتی علوم کی جانب سے آنے والے اولمپکس کے لیے ایک غیر متوقع اور قیمتی تحفہ قرار دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پیدل راستوں سے ناقابلِ رسائی ہے اس لیے تحقیق کے لیے ڈرونز اور جدید ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی تاکہ ان نایاب آثار کا مزید تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔
