\
اتوار‬‮   21   دسمبر‬‮   2025
 
 

میرا تحفہ میری مرضی

       
مناظر: 834 | 21 Dec 2025  

عریضہ /سیف اللہ خالد
توشہ خانہ ریاست کا وہ گوشہ ہے جہاں غیر ملکی سربراہان، بادشاہوں اور معزز شخصیات کی جانب سے حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو دیے گئے تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ قانون یہ اجازت دیتا رہا ہے کہ ان تحائف کو ایک طے شدہ قیمت ادا کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ قانون طویل عرصے تک ڈھیلا ڈھالا رہا اور اس میں بے جا سہولتیں موجود تھیں، جنہیں حالیہ برسوں میں کسی حد تک سخت کیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قانون کی یہ نرمی اخلاقی معیار پر بھی پوری اترتی ہے؟ خاص طور پر اس وقت، جب بات اس امت کی ہو جس کے لیے آقا محمد ﷺ نے دیانت، امانت اور جواب دہی کے اصول خود متعین فرما دیے ہوں۔
پاکستان میں توشہ خانہ ہمیشہ سے تنازع کی علامت رہا ہے۔ وزراء اور وزرائے اعظم مارکیٹ سے برائے نام قیمت لگوا کر ادائیگی کرتے رہے اور قیمتی تحائف اپنے گھروں میں سجاتے رہے۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے متعلق دو مقدمات تھے، ایک سونے کی گھڑی سے متعلق ، جس میں سنائی گئی سزا کو ہائی کورٹ نے معطل کر رکھا ہے، تاہم اس کی بحالی کا امکان اب بھی موجود ہے کیونکہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ تک جانا باقی ہے۔ دوسرا وہ مقدمہ جس میں گزشتہ روز عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنائی جا چکی ہے، اور فیصلے میں یہ بھی تحریر ہے کہ ’’عمران خان کی عمر زیادہ ہونے اور بشریٰ بی بی کے خاتون ہونے کے باعث سزا میں نرمی کی گئی۔‘‘اس مقدمے کے مطابق 2021 میں سعودی ولی عہد کی جانب سے دیے گئے بلغاری جیولری سیٹ کو توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق اس جیولری سیٹ کی مجموعی مالیت 7کروڑ 15لاکھ روپے سے زائد تھی، مگر عمران خان اور بشریٰ بی بی نے ایک نجی فرم سے اس کی قیمت صرف59 لاکھ روپے لگوائی۔ اس سیٹ میں نیکلیس، بریسلیٹ، انگوٹھی اور بالیاں شامل تھیں۔ پرائیویٹ اپریزر صہیب عباس کے مطابق عمران خان کے پرائیویٹ سیکرٹری انعام شاہ نے دباؤ ڈالا کہ قیمت کم بتائی جائے،بعد ازاں کسٹم حکام کے ذریعے بھی قیمت کا تعین کیا گیا۔ توشہ خانہ ٹو کیس کی اسی سے زائد سماعتیں اڈیالہ جیل میں ہوئیں اور بالآخر سزا سنا دی گئی۔
یہ کہنا حقیقت کے منافی ہوگا کہ توشہ خانہ کی لوٹ مار میں صرف یہی جوڑا ملوث رہا ہے۔ آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے خلاف بھی ایسے مقدمات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یوسف رضا گیلانی پر الزام ہے کہ بطور وزیر اعظم قوانین میں نرمی پیدا کی تاکہ اس وقت صدر کے عہدے پر فائز آصف علی زرداری توشہ خانہ سے مہنگی گاڑیاں حاصل کر سکیں۔ نواز شریف پر بھی مقدمہ بنا تھا کہ توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اونے پونے داموں حاصل کیں۔ماضی میں اس مقدمہ میں سزا کی کوئی نظیر نہیں ، لیکن کسی اور کو سزا کا نہ ملنا جرم کا جواز نہیں بن سکتا ، لہٰذا یہ سزا اس حوالہ سے خوش آئند ہے کہ کم ازکم لوٹ مار پر سزا کی روائت شروع تو ہوئی، ویسے بھی بری روایات کے ٹوٹنے اور احتساب کی نئی روایات قائم کرنے کا دور ہے ۔ کہا جاتا تھا کہ جرنیل اور جج کو کبھی سزا نہیں ہوتی ، گزشتہ ہفتے اپنے دور کے طاقتور ترین جرنیل اور دیدہ دلیری دکھانے والے جج کو سزا سناکر اس تاثر کی نفی پہلے ہی کی جا چکی ہے ، اب سابق وزیرا عظم کاایک احتساب اس امر کی دلیل ہے کہ وقت بدل رہا ہے ، وہ سب جوخود کو قانون سے ماوریٰ سمجھتے تھے ، اب زیر دام آرہے ہیں ، موجودہ اراب اختیار کے لئے بھی اس میں سبق ہے کہ ’’ وقت کسی کا نہیں ، دامن کو بچا کر گزریں ورنہ کل آپ کی باری یقینی ہے ۔
تحائف دنیا بھر میں حکمرانوں کو ملتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مگر اس طرح کی چھینا جھپٹی، چوری، مقدمات اور ریاست کی بدنامی کا تماشہ صرف ہمارے ہاں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے امریکہ کی ایک مثال کافی ہے۔ سن 2005 میں دنیا کے طاقتور ترین ملک کے دو ادارے ایک تحفے پر آمنے سامنے آ گئے۔ معاملہ یہ تھا کہ بلغاریہ کے صدر نے امریکی صدر جارج بش کو ایک تحفہ دیا۔ یہ تحفہ ’’بیلکن‘‘ نامی دو ماہ کا ایک خوبصورت کتا تھا، جس کی قیمت اس وقت صرف 430 ڈالریعنی تقریباً پچیس ہزار آٹھ سو روپے بنتی تھی۔ مسئلہ یہ بن گیا کہ امریکی قوانین کے مطابق صدر صرف 305 ڈالر مالیت تک کا تحفہ ذاتی طور پر رکھ سکتا ہے اور اس کتے کی قیمت اس سےزیادہ تھی۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ یامریکی نیشنل آرکائیوکسی زندہ تحفے کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتا۔حل یہ نکالا گیاکہ صدر جارج بش کو اپنی جیب سے اس کتے کی پوری قیمت ادا کر کے اسے ذاتی ملکیت بنانا پڑا۔ ایک یہ مثال ہے کہ جہاں دنیا کا طاقتور ترین شخص صرف 305 ڈالر سے زیادہ مالیت کا تحفہ بغیر قیمت ادا کیے اپنے گھر نہیں لے جا سکتااور ایک ہم ہیں کہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں’’ میرا تحفہ، میری مرضی‘‘یہ کہتے ہوئے قرضوں میں ڈوبی قوم کے لیڈروں کی زبان لڑکھڑاتی بھی نہیں۔عمران خان کا معاملہ زیادہ سنگین اس لئے بھی ہے کہ موصوف نے عوام کو ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر ورغلایا، اور عملی میدان میں اس کے بر عکس مثال پیش کردی ۔ حدتو یہ کہ کروڑوں روپے کی گھڑی تحفے میں لے کر بیچتے وقت انہیں ذرا سی بھی شرم محسوس نہ ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے؟ اور اس معاملے میں آقا محمد ﷺ کے واضح احکامات کیا ہیں؟ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن اللتیبہؓ کو بنی سلیم کے صدقات وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کر کے بھیجا۔ جب وہ واپس آئے اور حساب پیش کیا تو کچھ مال الگ رکھ کر کہا کہ یہ مجھے تحفے میں ملا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہتے،تو کیا یہ تحفہ وہاں آ جاتا، پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس کام پر مقرر کرتا ہوں جو اللہ نے مجھے سونپا ہے، پھر وہ آ کر کہتا ہے کہ یہ مال آپ کا ہے اور یہ تحفہ مجھے دیا گیا۔ ایسے شخص کو چاہیے تھا کہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہتا تاکہ اس کا تحفہ وہیں پہنچتا۔آپ ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ جو شخص حق کے سوا کوئی چیز لے گا، وہ قیامت کے دن اسے اٹھائے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ چاہے وہ اونٹ ہو، گائے ہو یا بکری۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور فرمایا: اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا؟‘‘
بات بالکل سیدھی ہے۔ جب تک ہم اپنی اصل یعنی ریاستِ طیبہ کی طرف نہیں لوٹیں گے، اور آقا محمد ﷺ کے فرمودات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے ، توشہ خانے لٹتے رہیں گے ، کل زرداری، نواز شریف اور .یوسف رضا گیلانی تھے، آج عمران خان ہے، کل کوئی اور ہوگا۔ مسئلہ افراد کا نہیں، سوچ کا ہے