بنگلہ دیش کے کوچہ وبازار سے ایک بار پھر وہی صدا گونجنے لگی ہے جو کبھی دریائے پدما کے کناروں سے دریائے راوی تک بلند ہوا کرتی تھی ، وہی شناسا ،شناساں درد ، وہی محبت کی چاشنی ، مشترکہ غم کی کسک اور زبان و نسل کے فرق کے باوجود دلوں کی قربت ۔ آج پھر ڈھاکہ پاکستان سا دکھائی دیتا ہے ، فضا میں نعرہ ہائے تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے ہیں، آنکھوں میں آنسو ہیں اور دلوں میں ایک عجیب سی پہچان کی بازگشت ہے۔ بھارت سے نفرت اور پاکستان سے محبت کا وہ جذبہ، جسے نصف صدی قبل سازش سیاست، پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ نے دبانے کی کوشش کی، اب پھر لوٹ آیا ہے۔ شاید پہلے سے زیادہ شدت اور سچائی کے ساتھ۔
عثمان ہادی جو ڈھاکہ کی سرزمین پر پاکستان کا پرچم بن کر لہرایا ، بھارتی غلامی کی شب تاریک میں صبح آزادی کی پہلی کرن ،ہندوتوا کے بت کدے میں صدائے تکبیر ،مزاحمت کی اولین پکار اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ بن گیا ، وہ ایک فرد نہیں ، ایک نظریہ تھا ، پاکستان کی محبت کا ترجمان ، اس کی تقاریر سنیں تو زبان سمجھ نہ آنے کے باوجود لہجے کی گھن گرج اپنوں کے قلب وجگر کو اطمینا ن عطا کرتی ہےا ور دشمن کو دہلادینے کو کافی ہے ، ایک ایک حرف یقین کامل میں گندھا ہوا ، وہ ایک شخص تاریخ کا دھارا موڑ کر چلا گیا ، جس دھج سے وہ مقتل میں گیا ہے ،ایسی موت ، ایسے جنازے کی تمنا صدیو ں سےکی جاتی ہے ، آخرشب سجدوں میں عشاق گڑ گڑا کر اپنے رب سے ایسا ہی وصل مانگتے ہیں ،مگر ؛
ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
یہ شہادت محض ایک فرد کی موت نہیں تھی بلکہ ظلم وجور اور دہلی کی سازشوں کاپردہ چاک ہونے کا لمحہ تھا۔ ایک ایسا لمحہ جس نے بنگالیوں کی آنکھوں سے وہ دھند ہٹا دی جو دہائیوں سے مسلط تھی۔ جس بھارت کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا، اسی بھارت کا اصل چہرہ اب سوالوں کے کٹہرے میں ہے۔ اور جس پاکستان کو ہمیشہ ظلم، جبر اور محرومی کی علامت بنا کر دکھایا گیا، اسی کے لیے آج بنگلہ دیش کی سڑکوں پر “پاکستان زندہ باد” کے نعرے گونج رہے ہیں۔یہ مناظر بھارتی دانشوروں کو سب سے زیادہ پریشان کر رہے ہیں۔ دہلی اور کولکتہ کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھے تجزیہ کار بے اختیار کہہ اٹھے ہیں’’یہ بنگلہ دیش نہیں، یہ تو مشرقی پاکستان ہے۔‘‘ شاید انہیں یہ اعتراف کرتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے، مگر سچ یہی ہے۔ نام بدل گئے، جھنڈے بدل گئے، مگر دل وہی ہیں ، محبتیں وہی ہیں ، نعرے ، ارادےا ورا علان وہی ہیں ، وہ بیتے دنوں کی یاد ، حقیقت کو دھانپ لینے والی دھند تھی ، خون آلو ددھند، جو لوگ اس دوران بچھڑ گئے ، پچھڑ گئے اور سازش کا شکار ہوئے ان کی نسلیں اس کے سوا کیا کہ سکتی ہیں کہ ؛
اک قصہ اُڑتے پتوں کا۔۔۔
جو سبز رتوں میں خاک ہوئے
جو فصل گل میں راکھ ہوئے!!!
کچھ باتیں ایسے رشتوں کی
جو بیچ نگر میں ٹوٹ گئے!!
کچھ یادیں ایسے ہاتھوں کی
جو بیچ بھنور میں چھوٹ گئے
بنگالی نوجوان جس نے مشرقی پاکستان کا زمانہ نہیں دیکھا، وہی سوال اٹھا رہا ہے جو ان کے بزرگ کبھی دل میں دفن کر چکے تھے۔ کیا واقعی پاکستان دشمن تھا؟ یا دشمنی سکھائی گئی؟ بھارت ہمارا محسن تھا، یا سازشی دشمن ؟یہی وہ لمحہ ہے جب تاریخ خود بولتی ہے، اس بار عثمان ہادی کی زبان سے بولی’’تم کون میں کون۔۔ رجا کار رجا کار‘‘ یعنی پاکستان کا رضا کار،پاک فوج کا رضا کار ، جو طعنہ تھا ، عثمان اور اس کے ساتھیوں نے فخر بنادیا ہے ، اور تاریخ کی زبان بننے والے کو رب نے تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنا ڈالا۔ سچ یہ ہے کہ بنگالی اور پاکستانی رشتہ خون کا رشتہ ہے، بلکہ خون سے بھی گاڑھا ، کلمے کا رشتہ ، ایک رب اور ایک آقا محمدﷺ کی غلامی کا رشتہ ۔ زبان مختلف ہو سکتی ہے، لباس مختلف ہو سکتا ہے، مگر دلوں کی دھڑکن ایک ہے، زبان پر جاری لاالہ اللہ ایک ہے ، دلوں کا سکون محمد الرسول اللہﷺ بھی ایک ہے۔ ظلم ایک پر ہوتا ہے، درد دوسرے کے سینے میں بھی اٹھتا ہے۔ نہ بھولیں کہ ڈھاکہ کی سڑکوں پر احتجاج نہیں،رجوع کا اعلان ہے ، اپنوں کی طرف واپسی ،گھر واپسی کا اعلان، دو بھائیوںنے گھر بانٹ لئے ،مگر بھائی بندی قائم ہے ، دکھ سکھ ایک ہے ، عزت سانجھی ہے ، اور دشمن ودوست بھی ایک ، محض جذباتی نہیں، فطری واپسی۔ بھارت مخالف نعرے محض سیاست نہیں، ٹوٹے ہوئے خواب کی تعبیر ہے، اور پاکستان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں کسی وقتی جوش کا نتیجہ نہیں، برسوں سے دبے احساس کی بازگشت ہے ۔بھارتی دانشور پراوین ساہنی اور دوسرے گر یہ کہہ رہے ہیں کہ “یہ بنگلہ دیش نہیں، مشرقی پاکستان ہے”، تو وہ ایک حقیقت تسلیم کر رہے ہیں، جسے انہوں نے اپنے تئیں مٹا ڈالا تھا ،یہ کہنا شاید بہتوں کو ناگوار گزرے، مگر سچ یہی ہے کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ تاریخ کے کسی موڑ پر ہمیں الگ ضرور کیا گیا، مگر دلوں کی سرحدیں آج بھی قائم نہیں ہو سکیں۔
عثمان ہادی کی شہادت نے اس رشتے کو مزید قوت دی ہے ۔ثابت کر دیا ہے کہ بنگالی دل آج بھی ناانصافی کے خلاف اسی طرح دھڑکتا ہے جیسے کبھی دھڑکتا تھا۔ وقت بدل رہا ہے۔ سچ آہستہ آہستہ ہی سہی مگر آشکار ہو رہا ہے۔ ڈھاکہ ا ور لاہور میں جو دیوار کھڑی کرنے کی سازش کی گئی، وہ منہدم ہو چکی ،نفرت سے نہیں، محبت کی ضرب سے ،عثمان ہادی کی شہادت نے اس پر مہر ثبت کردی ہے،امر کردیا ہے کہ اس سچ کو کہ خون بولتا ہے، تاریخ سانس لیتی ہے، اور رشتے وقت کے ظلم سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ نام جو بھی ہو، جھنڈا جو بھی ہو، دل اگر ایک ہو جائیں تو فاصلے خود ہی سمٹ جاتے ہیں۔ یہی آج کا سچ ہے، اور شاید آنے والے کل کی سمت بھی۔
اک قصہ اُڑتے پتوں کا۔۔۔
مناظر: 909 | 23 Dec 2025
