طاقت کے زعم میں اکثریتی طبقہ کے شرپسندوں نے دستور ہند اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا، یہ دن ہر سال مسلمانوں کے غم کو تازہ کر جاتا ہےطاقت کے زعم میں اکثریتی طبقہ کے شرپسندوں نے دستور ہند اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا، یہ دن ہر سال مسلمانوں کے غم کو تازہ کر جاتا ہے۔6 دسمبر 1992- ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ اسی دن دو فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔ ایک ایف آئی آر میں آٹھ افراد کے نام شامل ہیں، لال کرشن اڈوانی، ایم ایم جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا اور وشو ہندو پریشد کے رہنما اشوک سنگھل، گریراج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا۔ ان رہنماؤں کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید 47 ایف آئی آر درج کی گئیں، جس کے بعد ایف آئی آر کی کل تعداد 49 ہو گئی۔13 اپریل 1993- یوپی کے للت پور کے اسپیشل مجسٹریٹ نے جہاں پہلے مقدمات شروع کیے گئے تھے، ایف آئی آر نمبر 197 میں ‘لاکھوں کار سیوکوں’ کے خلاف مجرمانہ سازش (دفعہ 120 بی) کا الزام بھی شامل کیا۔8 ستمبر 1993- یوپی حکومت نے لکھنؤ کی خصوصی عدالت کو بی جے پی اور وی ایچ پی رہنماؤں کے ناموں کے علاوہ ایف آئی آر نمبر 198 بھی سونپ دی۔ ایف آئی آر نمبر 198 کا مقدمہ رائے بریلی کی عدالت کو منتقل کر دیا گیا۔5 اکتوبر 1993- سی بی آئی نے لکھنؤ کی عدالت میں 48 ملزمان کے خلاف مشترکہ چارج شیٹ داخل کی۔ اس میں شیوسینا کے سابق چیف بال ٹھاکرے اور یوپی کے سابق سی ایم کلیان سنگھ کا نام بھی شامل تھا۔8 اکتوبر 1993- یوپی حکومت نے 8 ستمبر کے نوٹیفکیشن میں ترمیم کی، تاکہ لکھنؤ عدالت ہی میں تمام 49 مقدمات کی سماعت ہو سکے۔1996- سی بی آئی نے اڈوانی اور دیگر آٹھ بی جے پی اور وی ایچ پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر نمبر 198 میں ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔9 ستمبر 1997- ایف آئی آر نمبر 198 میں لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے خصوصی جج نے تمام ملزم رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات لگانے کی ہدایت دی۔12 فروری 2001 – الہ آباد کی عدالت نے یوپی حکومت کے اکتوبر 1993 کے اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر نمبر 198 کو لکھنؤ کی عدالت کو بغیر کسی دائرہ اختیار کے بھیج دیا گیا تھا۔4 مئی 2001 – لکھنؤ کی عدالت نے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، بال ٹھاکرے سمیت 21 ملزمان کے خلاف کارروائی روک دی۔ اس کے بعد اس معاملے کو رائے بریلی کی عدالت منتقل کر دیا گیا۔28 ستمبر 2002- سی بی آئی نے 8 اکتوبر 1993 کے ایک نوٹیفکیشن میں عدالتی غلطیوں کی اصلاح پر زور دیا، جسے یوپی حکومت نے مسترد کر دیا۔ سی بی آئی نے یوپی حکومت کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔2002 – سی بی آئی نے رائے بریلی عدالت میں اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور پانچ دیگر افراد کے خلاف ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔ تاہم، اس نے مجرمانہ سازش کی دفعہ کا تذکرہ نہیں کیا۔22 مئی 2010۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے لکھنؤ کی عدالت کے 21 ملزمان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں دو طرح کے ملزمان تھے- ڈائس پر موجود رہنما اور دوسرے کار سیوک۔ عدالت نے کہا کہ دونوں گروہوں کے ملزموں کے خلاف مختلف الزامات ہیں اور ان کی شمولیت مختلف طریقوں سے ہونے والے جرائم میں تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر نمبر 198 میں آٹھ ملزمان پر کبھی بھی مجرمانہ سازش کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔19 اپریل 2017۔ سپریم کورٹ نے جرائم نمبر 198/92 کے معاملے کو رائے بریلی سے لکھنؤ منتقل کر دیا اور لکھنؤ کی عدالت نے اڈوانی، ونے کٹیار، اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا، مرلی منوہر جوشی اور وشنو ہری ڈالمیا کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات طے کرنے کو کہا۔ عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر 1993 کو سی بی آئی کی مشترکہ چارج شیٹ میں چمپت رائے، نرتیہ گوپال داس، کلیان سنگھ اور دیگر جن کے بھی نام تھے، ان کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کا الزام طے کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ بابری انہدام کیس میں روزانہ سماعت کرے گی اور اگلے دو سالوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔30 مئی 2017- بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے اڈوانی، اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی دیگر ملزمان کے ساتھ لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے۔مئی 2019 – خصوصی جج نے سپریم کورٹ سے کیس کی سماعت نمٹانے کے لئے چھ ماہ کی مہلت طلب کی۔جولائی 2019۔ سپریم کورٹ نے بابری انہدام کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی سی بی آئی جج کی مدت کار میں فیصلہ سنانے تک توسیع کرنے اور مقدمے کی سماعت کو مکمل کرنے کے لئے نو ماہ کی مہلت دے دی۔مئی 2020- سپریم کورٹ نے خصوصی سی بی آئی جج سے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت مکمل کرے اور اگست 2020 تک اس معاملے میں فیصلہ دے۔2 جولائی 2020 – بی جے پی رہنما اوما بھارتی نے سی بی آئی کے خصوصی جج کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔13 جولائی 2020- یوپی کے سابق وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما کلیان سنگھ سی بی آئی عدالت میں پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا۔23 جولائی 2020- بی جے پی کے مارگ درشک منڈل میں شامل سینئر رہنما مرلی منوہر جوشی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اس معاملے میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔24 جولائی 2020- ایل کے اڈوانی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سی بی آئی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔اگست 2020- سپریم کورٹ نے خصوصی سی بی آئی عدالت سے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت مکمل کرے اور 30 ستمبر تک فیصلہ سنائے۔16 ستمبر 2020- سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں حتمی فیصلہ سنانے کے لئے 30 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن طے کی۔30 ستمبر 2020: سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ بابری مسجد کی گنبد پر غیر سماجی لوگ چڑھے ہوئے تھے اور ملزمان نے اس کے لئے کوئی سازش نہیں کی تھی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمان نے تو الٹے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
بابری مسجد: شہادت سے تمام ملزمان کے بری ہونے تک، کب کب کیا کیا ہوا؟
مناظر: 387 | 6 Dec 2022