پیر‬‮   25   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

بھارتی یوم جمہوریہ فراڈ، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے

       
مناظر: 880 | 26 Jan 2023  

تحریر: اعجاز خان

کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طورپرمنائیں گے تاکہ دنیا کی توجہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے جار ی غیر قانونی قبضے کیطرف مبذول کرائی جائے گی بھارت نے اپنے نام نہاد بھارتی یوم جمہوریہ پرمقبوضہ کشمیر کوفوجی چھائونی میں بدل دیابھارتی فورسز کی غیر معمولی نقل وحرکت اور پکڑ دھکڑ سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔سری نگر اور جموں کے ہر کونے کی ڈرون اور سی سی ٹی وی کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔رات کے اوقات میں فوج کی کیسپر گاڑیوں کو سرینگر کے مختلف علاقوںمیںگشت کرتے دیکھا گیا ہے خاص کرلالچوک سے ڈلگیٹ اور دیگر جگہوں کے علاوہ سٹیڈیم کے راستوں پر کیسپر گاڑیوں کا گشت بڑھایا گیا ہے آزاد کشمیر ، پاکستان اورمختلف ممالک کے دارلحکومتوں میں بھارت مخالف مظاہرے اور ریلیاں نکالی جائیں گی تاکہ عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ بھارت جس نے کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں بھارت کومقبوضہ علاقے میں اپنا یوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ پوسٹروں کے ذریعے کشمیری عوام سے بھارتی یوم جمہوریہ کی سرکاری تقاریب کا بائیکاٹ کرنے اور اپنے گھروں ، دکانوں اور دیگر عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرانے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل پوسٹر آویزاں کئے جارہے ،آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیری اقوام متحدہ کے دفاتر اوربھارتی سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کریں گے،جبکہ کشمیری یاداشتیں پیش کریں گے جن میں اقوام متحدہ اور بھارتی حکومت پر زوردیا جائے گا کہ وہ کشمیریوں سے کئے گئے اپنے وعدے پورا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق انہیں اپنا حق خود ارادیت دیں،مقبوضہ کشمیر میں 50ہزار سے زیادہ غیر مقامی ہندوئوں کو ڈومیسائل جاری ، آبادی کا تناسب بدل جائے گامقبوضہ کشمیر مین ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی بھارت اپنی گرفت مظبوط کرتا جا رہا ہے ایک رپورٹ کے اعدادو شمار کے مطابق مودی سرکار 50ہزار سے زیادہ غیر مقامی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرچکی ہے ڈومیسائل جن کوجاری ہواان میں بھارتی فوج کے ریٹائرڈ ایسے افسران و جوان اور بیورکریٹ بھی شامل ہیں جو ملازمت کے دوران مقبوضہ کشمیر میں تعینات رہے اور وہاں کے ماحول سے بخوبی واقف ہیں۔ڈومیسائل ملنے کے بعدبھارت کے ہندوئوں کو اختیارمل گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں املاک خرید کرسکیں، کاروبار کریں یا سرکاری ملازمت حاصل کرسکیں۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور وہ فوجی جومقبوضہ کشمیر میں رہائش کے خواہشمند ہوں انہیں رہائش کیلئے کم قیمت پر زمین سرکار فراہم کرے گی جبکہ گھر انہیں خود تعمیر کرناہوگا۔ اس مقصد کیلئے بینک انہیں بہت کم مارک اپ کے ساتھ آسان اقساط پر قرضہ بھی فراہم کریں گے۔ انہیں غیر ممنوعہ بور کے خود کار ہتھیاررکھنے کیلئے سرکار لائسنس جاری کریگی تاہم ممنوعہ بور کے اسلحہ کیلئے انہیں خصوصی اجازت نامہ درکار ہوگا جو بھارتی وزارت دفاع کے این او سی سے مشروط ہوگا ۔ کاروبار کے خواہشمند بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کے بینک کم مارک اپ کے ساتھ قرض دینے کے پابند ہونگے۔ غیر کشمیری بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کیلئے سب سے بڑا مسئلہ وہاں تمام اضلاع کے شہری علاقوں میں زمین کا حصول ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرکار کی زمینوں پر پہلے ہی بھارتی فوج اور بارڈر سیکورٹی فورس کے علاوہ دیگر نیم فوجی دستے قابض ہیں جنہیں 1989کے بعد سے امن و امان کے قیام کے نا م پر لاکھوں کی تعداد میں مقبوضہ علاقوں میں تعینات کیا گیا۔ 1990کی دہائی تک یہ تعداد 6لاکھ سے کچھ زیادہ تھی جو 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کے بعد سے بڑھ کر تقریباً10لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں بہت سے تعلیمی ادارے بھارتی فوج کو عارضی طور پر رہائش اور فوجی ہیڈ کوارٹر ز کے طور پر دیے گئے تھے ،وہ نہ صرف ابھی تک بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے قبضے میں ہیں بلکہ ان کو مزید وسعت دے کر قبضے کو مزید مستحکم کیا جاچکا ہے ۔ فوج کی یونٹوں اور بریگیڈہیڈ کوارٹر ز کیلئے الگ سے شہری حدود کے باہر تعمیرات کی گئی ہیں ۔ ایسے میں غیر کشمیری ہندوئوں کی آباد کاری کیلئے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ کشمیریوں کی زمین، کھیت وباغات اور ان کی املاک پر قبضہ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں قوانین کی تیاری میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر مقامی یہودیوں کی آبادکاری کیلئے اسرائیل میں تیارکردہ قوانین سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ یہ قوانین ماضی میں “Settler Colonial Project”کے نام سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کامیابی کے ساتھ بروئے کار لائے جاچکے تھے تاکہ مقامی آبادی کی روایات ، شناخت ، تہذیب وتمدن اور آبادی کوبتدریج تحلیل کے عمل سے گزار کر نئے آبادکاروں کو غلبہ دلایاجاسکے۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے ہزاروں شہریوں کو زمین کا ناجائز قابض قرار دے کر زمین سے بے دخلی کا نوٹس جاری کر دیا ہے ۔ کئی سابق وزرا ، سابق ممبران اسمبلی سمیت30 سے زائد سیاست دانوں اور ہزاروں عالم شہریوں کو5 اگست 2019 سے پہلے کے قانون جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ کے تحت حاصل اراضی خالی کرنے کا نوٹس جاری کر دیا گیاہے ۔ان افراد میں کانگریس، نیشل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور چند دیگر اپوزیشن جماعتوں کے افراد اور سابق بیوروکریٹ اور ملازمین بھی شمال ہیں۔مقبوضہ کشمیرمحکمہ مال کے کمشنر سیکریٹری وجے کمار بدھوری نے 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ کے تحت حاصل اراضی کو جنوری کے آخر تک ختم کرانے کا حکم جاری کیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہان کےعام شہریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں سے زمینیں چھین کر انہیں افلاس و تنگ دستی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے خدشات صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک بھارتی ٹی وی کے مطابق جمعرات کوشمالی کشمیر کے بارہ مولا ضلع کے مختلف مقامات پر انتظامیہ نے اراضی خالی کرانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا ہے ۔ اس آپریشن میں سینکڑوں کنال اراضی خالی کرالی گئی ہے ۔ آپریشن کے دوران لوگوں کے گھروں کو بھی مسلمار کر دیا گیا ہے ۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ان افراد کوسرکاری اراضی پر ناجائز قابض قرار دے کرانہیں اراضی کو 31 جنوری 2023 سے پہلے حکومت کو واپس لوٹانے یا پھر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کی مذہبی شناخت ختم کرنے کے لیے مزاروں اور مساجد کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس فیصلے کے تحت مقبوضہ کشمیر کے دارلحکومت سری نگر میں تاریخی جامع مسجد بھی حکومت کے کنٹرول میں چلی جائے گی ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے وقت 5 اگست2019 سے جامع مسجد سری نگر میں نماز کی ادائیگی پر پابندی تھی ۔ جامع مسجد کے امام میر واعظ عمرفاروق بھی گزشتہ تین سال سے نظر بند ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے جموں و کشمیر وقف بورڈ کے تحت مزاروں اور مساجد کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے لیے ضلعی ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو حکم جاری کر دیا ہے ۔ مقامی مسلمانوں نے اس فیصلے کوکشمیر کی مسلم شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ بی جے پی کی رہنما درخشاں انداربی کی سربراہی میں جموں و کشمیر وقف بورڈ نے ضلعی ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ مزارات، جامع مسجدوں، خانقاہوں اور متعلقہ جائیدادوں کی فہرست تیار کی جائے ۔ بورڈ نے مزاروں اور جامع مساجد کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے لیے ضلعی سطح کی کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں۔ بورڈ نے ضلعی ایگزیکٹو مجسٹریٹ سے یہ بھی کہا ہے کہ ان مزارات / جامع مسجد / خانقاہوں اور اس سے منسلک جائیدادوں کی ایک علیحدہ فہرست بھی تیار کی جائے، جو وقف شدہ جائیدادیں نہیں ہیں انہیں بھی انتظامی کنٹرول میں لایا جائے گا”۔ بھارت نے 5اگست2019 کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد 800نئے بھارتی قوانین کے زریعے ریاست کو بھارتی وفاق کا حصہ بنا دیا ہے ۔334 ریاستی قوانین میں سے 164 قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور 167 قوانین کو بھارتی آئین کے مطابق ڈھال لیا گیا ۔ ان قوانین سے مقامی آبادی اپنی شناخت ، ثقافت، حقوق،شہری و سیاسی آزادیوں سے محروم ہو گئی ہے ۔ کشمیری خاتون صحافی اور جموں وکشمیر کے سب سے پرانے اور موقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین ابواب اور 400صفحات پر مشتمل کتاب آرٹیکل 370 کے بعدایک تباہ شدہ ریاست کی ان کہی کہانی منظر عام پر آگئی ہے ۔ جمو ں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر تحقیقی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی بھارتی حکو مت نے کس طرح ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرکے لداخ اور بقیہ خطے کو دو مرکزی انتظام والے علاقوں میں تبدیل کردیا اور اسی کے ساتھ خود بھارتی آئین میں اس خطے کے آئینی حقوق اور محدود خود مختاری کو ختم کر دیا ہے۔ انورادھا بھسین کے مطابق پچھلے تین سالوں میں جموں وکشمیر میں مجموعی طور پر ایک ہزار کے قریب نئے قوانین کا اطلاق کیا گیا۔ دفعہ 370 کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا اور 1,800 سے زیادہ درختوں کی کٹائی کی منظوری دی گئی۔ 26 جولائی 2020 کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل نے مزید دو ترامیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ‘اسٹریٹجک ایریاز’ کے طور پر ڈیکلیر کیا جاسکتا ہے، جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ مئی 2020 کو سری نگر سے تقریبا 26 کلومیٹر دور پٹن میں بھارتی فوج کی ایک یونٹ نے 129 کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ پہلے پانچ مہینوں کے اندر ہی بڑے پیمانے پر زمین کی تلاش کی مشق میں، جموں و کشمیر حکومت نے صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کشمیر کے علاقے میں 203,020 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے 15,000 ایکڑ کی نشاندہی کی۔ حکام کے مطابق اس زمین کا زیادہ تر حصہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے کیونکہ یہ یا تو دریاوں، ندیوں اور دیگر آبی ذخائر کا حصہ ہے یا اس کے قریب ہے۔ جموں میں ترقی کے لیے 42,000 ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے 727 ہیکٹر (1,780 ایکڑ) سے زیادہ جنگلاتی اراضی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس نے نامزد جنگلاتی علاقوں اور سوشل فارسٹ کے علاقوں میں کم از کم 1,847 درختوں کی کٹائی کی بھی منظوری دی ہے ۔ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے منصوبوں کے لیے جلد بازی سے منظوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے 198 منصوبوں کو 18 ستمبر سے 21 اکتوبر 2019 تک تینتیس دنوں کے دوران چار اجلاسوں میں منظور کیا گیا۔ کشمیری صحافی اور مصنف افتخار گیلانی کے مطابق دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین ابواب اور 400صفحات پر مشتمل کتاب آرٹیکل 370 کے بعدایک تباہ شدہ ریاست کی ان کہی کہانی صحافیوں اور کشمیر پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کرنے والوں کیلئے ایک نہایت ہی عمدہ گائڈ ہے۔ یہ کتاب، جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنس نے شائع کی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے جموں کے ضلع ڈودا میں بھارتی فوج کی 10 راشٹریہ رائفلز کے 8 ٹریننگ کیمپس میں500 انتہا پسند ہندووں نے فوجی تربیت مکمل کر لی ہے فوجی تربیت مکمل کرنے والے سرکاری طور پر قائم کی گئی دہشت گرد تنظیم ولیج ڈیفنس گارڈز(VDGs) کا حصہ ہیں ان ارکان میں ہتھیار بھی تقسیم کیے گئے ہیں ولیج ڈیفنس گارڈز(VDGs) کے ارکان کو ایس ایل آر فراہم کی جارہی ہیں انہیں جنگی مشقوں کی تربیت بھی دی جا رہی ہے ۔کے پی آئی کے مطابق ولیج ڈیفنس گارڈز کے ارکان کو ہتھیاروں کی فراہمی اور فوجی تربیت پر جموں کے مسلمانوں میں خوف وہراس پیدا ہوگیا ہے ۔لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں سرحدی ضلعے راجوری کے گاں اپر ڈانگری کے دورے میں اعلان کیا تھا کہ وی ڈی جیز کو نہ صرف دوبارہ متحرک کیا جائے گا بلکہ انہیں مضبوط بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ مقامی ڈیفنس کمیٹی کے ارکان کودوبارہ بندوقیں دی جائیں گی جس سے مقبوضہ کشمیر میں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو جائیں گے اس سب کے باوجود اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں اگر اس وقت دنیا خاموش رہی بھارت کو لگام نہ دی تو مقبوضہ کشمیر مین کھبی بھی صورتحال نہیں بدل سکتی مودی کی ہلاکو چنگیز خان والی روش بدلنے کیلئے اقوام عالم کو انکھیں کھولنی ہونگی اور مسلہ کشمیر کیلئے کرادر ادا کرنا ہو گا

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0