تحریر :سید عاصم محمود
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی ایک نمایاں وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ انتظامی، حکومتی اور مالی معاملات میں کرپٹ اور بے اصول نہیں!عام خیال یہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں قانون واصول کے مطابق ادا کرتا ہے۔
اسی لیے بہترین منتظم ہے۔لیکن پچھلے دنوں ایک مالیاتی اسکینڈل کی وجہ سے مودی کے گرد تنا بااصول اور بہترین منتظم ہونے کا ‘‘مقدس و پوتر‘‘ہالہ زمین بوس ہو گیا۔
غیر اخلاقی و غیر قانونی کام
ہوا یہ کہ جنوری 2023ء میں ایک امریکی کمپنی، ہنڈن برگ ریسرچ کی تحقیقی رپورٹ ’’Adani Group: How The World’s 3rd Richest Man Is Pulling The Largest Con In Corporate History‘‘ نے انکشاف کیا کہ مودی نے اپنے طاقتور سرکاری عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دوست و مربی، گوتم اڈانی کو کئی بار غیر قانونی فوائد پہنچائے۔
انہی فوائد کے سہارے وہ بھارت ہی نہیں دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شامل ہونے میں کامیاب رہا۔گویا مودی خود کو ایماندار اور بااصول ظاہر کرتا ہے لیکن حقیقت میں ہے نہیں…وہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر قوانین توڑ دیتا اور غیر اخلاقی و غیر قانونی کام بھی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر 2018ء میں مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارت کے چھ ہوائی اڈے نجی کمپنیوں کے سپرد کر دئیے جائیں۔ اس ضمن میں ان کی نیلامی کا اہتمام کیا گیا۔مودی حکومت نے نیلامی کی شرائط میں سے یہ اہم شرط ختم کر دی کہ صرف ہوائی اڈے سنبھالنے کا تجربہ رکھنے والی کمپنیاں ہی حصہ لے سکتی ہیں۔
یہ شرط اس لیے ختم کی گئی کہ مودی کے مربی کھرب پتی اڈانی کی کمپنی بھی نیلامی کے عمل میں شامل ہو سکے جو ہوائی اڈے چلانے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتی تھی۔توقع کے مطابق اڈانی کی کمپنی نے سب سے زیادہ بولی دے کر سبھی چھ ہوائی اڈوں کو پچاس سال تک چلانے کا سرکاری ٹھیکہ حاصل کر لیا۔
بھارتی ماہرین کے نزدیک یہ اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور اقربا پروری کی بدترین مثال ہے۔ وزیر اعلی پھر وزیراعظم کی حیثیت سے اڈانی کی کمپنیوں پر مودی ایسی نوازشات اکثر کرتا رہا ہے۔گویا اس نے اپنے دوست کو مالی فوائد دینے کے لیے اخلاقیات، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو پیروں تلے روند دیا۔یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے جو مملکت میں کرپشن و لاقانونیت کو فروغ دیتی ہے۔
کروڑوں بھارتی غریب
مودی کی زیرسرپرستی جاری اقربا پروری ہی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی معاشی ترقی سے بنیادی طور پہ وہاں کا ایلیٹ طبقہ یا اشرافیہ ہی فوائد اٹھا رہا ہے۔وہ امیر سے امیر تر ہو گیا جبکہ اسّی نوے کروڑ غریب بھارتی عوام کی زندگیوں میں کوئی نمایاں مثبت تبدیلی نہیں آ سکی۔
وہ آج بھی غربت، بھوک، مہنگائی، بیماری، بیروزگاری جیسے خوفناک عفریتوں کے چنگل میں پھنسے بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔مودی کے اقتدار میں بھارت کی معاشی ترقی سے بنیادی طور پہ امرا کو فائدہ پہنچا ہے اور ان کی دولت میں بے محابا اضافہ ہو گیا۔
مودی اور اڈانی, دونوں ریاست گجرات کے جنم پل ہیں ۔ پاکستان و بھارت کے بانیوں، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور گاندھی جی کی جڑیں بھی اسی ریاست سے اٹھی تھیں۔
اکتوبر 2001ء میں جب مودی اس تاریخ ساز ریاست کا وزیراعلی مقرر ہوا تو اڈانی گجرات کی نمایاں کاروباری شخصیت بن چکا تھا۔ان کے مابین مختلف تقریبات میں دعا سلام ہوتی ہو گی، لیکن دوستی کا باقاعدہ آغاز سانحہ گجرات کے بعد ہوا…۔وہ انسانی المیّہ جو شاید مرتے دم تک نریندر مودی کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
قاتل اور غنڈہ
گجرات کے ہزارہا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا قاتل مودی ہے۔اگر بہ حیثیت وزیراعلی وہ قانون و اصول پہ عمل کرتا تو ریاست میں صدیوں سے آباد مسلمان کبھی انتہا پسند ہندوؤں کا نشانہ نہیں بنتے۔مگر مودی نے غنڈوں کو یہ اجازت دے دی کہ وہ کھل کر مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیل لیں۔وجہ یہ کہ مودی نہ صرف یہی چاہتا تھا بلکہ اپنی اصل میں وہ ایک غنڈہ ہی ہے۔یوں انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہزارہا گجراتی مسلم مرد، عورتیں اور بچے بے دردی سے شہید ہوئے۔
خاندان کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔حقیقتاً مودی کی زیرقیادت ریاست سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کی بھرپور کوشش ہوئی ۔آج بھارتی مسلمانوں کی اکثریت الگ تھلگ کچی پکی بستیوں میں رہائش رکھنے پر مجبور ہو چکی۔غریبوں کی بستیوں میں تو ضروریات زندگی بھی میسر نہیں۔
سانحہ گجرات کا آغاز 27فروری 2002ء کی صبح ہوا جب گجراتی شہر، گودھرا کے ریلوے اسٹیشن پر ریل میں سوار رام بھگت اور مسلمان پھیرے والے لڑ پڑے۔اسی دوران پرُاسرار طور پہ ریل کی بوگیوں میں آگ لگ گئی اور وہاں بیٹھے ہندو جل مرے۔
بھارت کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ بوگیوں میں آگ مودی کے کارندوں نے لگوائی تاکہ اپنے مفادات حاصل کیے جا سکیں۔دراصل تب گجرات اسمبلی کے بیشتر ارکان مودی کو بطور وزیراعلی قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔کوئی اسے مغرور وسخت گیر سمجھتا تھا۔بعض کا کہنا تھا کہ وہ ایک نچلی ذات کے فرد کو اپنا لیڈر نہیں مان سکتے۔غرض مودی کی وزارت اعلی خطرے میں تھی۔
سوچا سمجھا منصوبہ؟
اسی دوران گودھرا ریلوے اسٹیشن کا واقعہ پیش آ گیا۔ امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو نشانہ بنانے والا واقعہ نائن الیون بھی بڑا پُراسرار تھا، اس معنی میں کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر فوری طور پہ امریکی میڈیا نے دعوی کر دیا کہ یہ حملہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ نے کرائے ہیں،جیسے انھیں پہلے ہی اس کی خبر تھی۔
اسی طرح گجراتی میڈیا فی الفور دعوی کرنے لگا کہ ریل میں آگ ’’دہشت گرد ‘‘مسلمانوں کے ایک گروہ نے لگائی ۔یہ واضح ہے کہ گجراتی میڈیا مودی کے احکامات پہ عمل کر رہا تھا۔اس نے چوبیس گھنٹے نشریات جاری رکھ کر ہندوؤں کے جذبات انتہائی مشتعل کر دئیے۔اس کے بعد جو قیامت ارضی برپا ہوئی، اس کی بابت سبھی جانتے ہیں۔
2001ء میں مودی کی پارٹی، بی جے پی گجرات میں بلدیاتی الیکشن ہار گئی تھی۔پھر ضمنی الیکشن میں بھی تین ریاستی سیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔یوں ریاست میں اپوزیشن پارٹی، کانگریس کی پتنگ چڑھنے لگی۔امکان پیدا ہو گیا کہ آمدہ الیکشن جیت کر وہ ریاست میں حکومت بنا سکتی ہے۔
کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ہی مودی نے ہندو مسلم فساد کرایا تاکہ ایک تیر سے دو شکار کر سکے…اپنی حکومت مضبوط کر لے اور کانگریس کو نمایاں نہ ہونے دے۔ہندو مسلم فساد کروا کر اس نے گجراتی ہندوؤں کو بی جے پی کے پلیٹ فارم پر اکھٹا کر لیا۔گودھرا ریل واقعے کے بعد گجرات میں جس وسیع پیمانے پر مسلم کش فساد ہوا، شاید مودی اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
مگر زیادہ سے زیادہ ہنگامہ ہونا اس کے مفاد میں تھا، اسی لیے وہ فساد کی چنگاریوں کو مسلسل ہوا دیتا رہا اور وہ شعلے بن گئیں۔مثلاً پولیس کو ہندو غنڈوں سے دور رکھا۔ غنڈوں کو ہتھیار اور آتش گیر مادہ فراہم کیا۔قاتلوں کو ہر ممکن تحفظ دیا گیا تاکہ وہ قانون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔غرض ہند مسلم فساد کروا کر مودی جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ اسے مل گئے۔
تاریخ کا دھارابدل گیا
گجرات میں وہ ہندومت کا محافظ اور سخت گیر منتظم بن کر ابھرا جسے عام ہندوؤں کی حمایت حاصل تھی۔چناں چہ اس کے مخالف ارکان اسمبلی کو مجبوراً مودی کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ریاست میں اپریل 2003ء میں الیکشن ہونے تھے۔
مودی نے اصرار کیاکہ وہ دسمبر 2002ء میں منعقد ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ہندو عوام میں اس سے چاہت و اپنائیت کی جو لہر چل پڑی ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر وزارت اعلی کی سیٹ پکی کی جا سکے۔حسب توقع مودی کی زیرقیادت بی جے پی نے الیکشن جیت لیا۔
مودی پھر اگلے بارہ سال تک ریاست کے سیاہ وسفید کا مالک رہا۔یہ حقیقت ہے کہ اگر اکیس سال پہلے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ہندو قوم پرستوں اور مسلمان ہاکروں کے مابین جھگڑا نہ ہوتا تو عین ممکن تھا، ارکان اسمبلی کی شدید مخالفت کے باعث مودی کی وزارت اعلی ختم ہو جاتی اور وہ دہلی واپس لوٹ جاتا۔وہ پھر اپنی انتہا پسندی اور سخت مزاج کے سبب بی جے پی کا نمایاں لیڈر نہ بن پاتا۔مگر 27 فروری 2002ء کے اس جھگڑے نے نہ صرف نریندر مودی کی قسمت بدل دی بلکہ بھارت کی تاریخ کا دھارا ہی الٹ ڈالا…وہ جمہوریت ، برداشت اور رواداری کے راستے سے ہٹ کر آمریت، نفرت اور دشمنی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔
گوتم اڈانی کی مدد
بھارت کے ممتاز صنعت کاروں، کاروباریوں اور تاجروں نے بجا طور پر گجراتی مسلمانوں کے قتل عام کا ذمے دار مودی اور ہندو قوم پرستوں کو قرار دیا۔اسی لیے وہ مودی کے ساتھ تعلقات رکھنے سے کترانے لگے۔
اس بنا پر ریاست میں سرمایہ کاری گھٹ گئی اور ریاستی معیشت کو زوال آ گیا۔تبھی ایک مقامی صنعت کار ، گوتم اڈانی مودی کی مدد کو آن پہنچا۔اڈانی کا نظریہ تھا کہ گجرات میں کاروبار وصنعت وتجارت میں مسلمان اپنی آبادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
وہ اپنے اپنے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ہندوؤں کے قدم جمنے نہیں دیتے۔چناں چہ ان کا حلقہ اثر توڑنے اور ہندؤں کو آگے لانے کے لیے مودی نے مسلمانوں کے ساتھ درست سلوک کیا۔ بھارت کے حاکم ہندو ہیں لہذا انھیں ہی صنعت وتجارت و کاروبار میں آگے رہنا چاہیے۔
گوتم اڈانی نے ہم خیال صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کا گروپ بنایا اور سرکاری منصوبے انجام دینے میں مودی حکومت کی مدد کرنے لگا۔یوں اڈانی نے ایسے نازک و کٹھن وقت مودی کا ساتھ دیا جب اس پہ شدید تنقید جاری تھی اور حکومت معاشی بحران کے باعث ختم ہو سکتی تھی۔
اسے مسلمانوں کا قاتل سمجھا جا رہا تھا۔اور اس پہ تھو تھو ہو رہی تھی۔اڈانی نے 2003ء میں ’’وائبرینٹ گجرات‘ کے نام سے ایک اکٹھ کا انتظام بھی کیا جس میں بھارت اور بیرون ملک سے سرمایہ کار شریک ہوئے۔مقصد یہ تھا کہ وہ ریاست گجرات میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
مودی کا بدلہ
اڈانی کے سرگرم تعاون کی وجہ سے ریاستی حکومت کے رکے منصوبے انجام پانے لگے۔نئے منصوبوں کو سرمایہ بھی مل گیا۔یوں ریاست کی معیشت بہتر ہونے لگی۔
اس طرح مودی کو بطوروزیراعلی گجرات میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔جلد ہی بطور ’’بہترین منتظم‘‘ اس کا چرچا ہونے لگا۔مودی کو بھی یہ لیبل پسند آیا کہ یوں وہ عام ہندو کے لیے زیادہ پُرکشش بن گیا۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اڈانی نے سیاست میں نریندر مودی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے، مودی نے مدد کا بدلہ یوں دیا کہ سرکاری ٹھیکے دینے میں اڈانی کی کمپنیوں کو ہر ممکن مراعات دینے لگا۔حتی کہ اکثر قوانین پس پشت ڈال دئیے جاتے تاکہ اڈانی کومالی فائدہ پہنچ سکے۔
مودی کی حمایت و اثر کے باعث بیشتر سرکاری و نجی ٹھیکے اڈانی کی کمپنیوں کو ملنے لگے۔یوں اس کاکاروبار پھلنے پھولنے لگا۔پیسا آیا تو اڈانی نے مختلف شعبوں میں نئی کمپنیاں کھول لیں۔ وہ تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے لگا، گو اس بڑھوتری میں مودی نے بھی اہم کردار ادا کیا جو منفی تھا۔
زندگی کے دو حصے
ساٹھ سالہ گوتم شانتی لال اڈانی کی زندگی کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ محنت، قابلیت اور ذہانت سے عبارت ہے۔یہ حصہ 1978ء سے 2002ء تک محیط رہا۔دوسرا حصے کا آغاز 2003ء سے ہوا جو تاحال جاری ہے۔
اس حصے پر کرپشن، فراڈ، لالچ و ہوس اور دھوکے بازی کے منفی عمل اڈانی پہ راج کرتے رہے۔وہ ان اعمال سے امیر ضرور ہو گیا مگر انہی کی وجہ سے اب اڈانی کو ذلت ورسوائی بھی مل رہی ہے۔اس نے دولت، شہرت اور عزت ضرور پائی مگر اس کے دامن پر گناہوں اور غیر اخلاقی و قانونی کاموں کے بدنما دھبے بھی لگ گئے۔
اڈانی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے باپ، شانتی لال اڈانی کا بیٹا ہے جو گجراتی شہر، احمد آباد میں ملبوسات اور روزمرہ اشیا فروخت کرتا تھا۔24 جون 1962ء کو پیدا ہوا۔والدین جین مت کے پیروکار تھے۔آمدن مناسب تھی مگر گھر میں آٹھ بچے پل رہے تھے۔
ان کے اخراجات ساری آمدن چٹ کر جاتے لہذا مالی تنگی ہی رہا کرتی۔اڈانی نے میٹرک پاس کرتے ہی تعلیم چھوڑ دی۔وہ اپنا کاروبار کرنا چاہتا تھا۔1978ء میں وہ ممبئی چلا گیا تاکہ ہیروں کی خرید وفروخت کے کاروبار میں قسمت آزمائی کر سکے۔
اس کے پاس رقم محدود تھی، سو ریل کی تھرڈ کلاس میں سفر کرنا پڑا۔ممبئی میں اڈانی ایک گندے سے کمرے میں رہتا رہا۔محنت کی مگر کامیابی نہ مل سکی۔
اس کی قسمت کا تالا 1982ء میں کھلا جب اڈانی کے بھائی نے پلاسٹک بنانے والی ایک چھوٹی سی فیکٹری کھول لی۔اس کو سنبھالنے کے لیے اڈانی واپس احمدآباد چلا آیا۔اس زمانے میں پلاسٹک بنانے کا مال بیرون ملک سے آتا تھا۔اسی لیے نایاب تھا کہ کانگریسی حکومت نے درآمدات پہ پابندیاں لگا رکھی تھیں۔مال کی نایابی کے سبب فیکٹری بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
قسمت مہربان
عجب اتفاق کہ انہی دنوں بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی سکھ گارڈوں کے ہاتھوں ماری گئی اور اس کا بیٹا، راجیو گاندھی نیا حکمران بن گیا۔ نئے وزیراعظم نے امپورٹ ایکسپورٹ کو بیوروکریسی کی پابندیوں اور سرخ فیتے سے آزاد کر دیا۔
یوں اب بیرون ممالک سے مختلف اشیا منگوانا آسان ہو گیا۔گوتم نے اڈانی ایجنسی و ایسوسی ایٹ کے نام سے ایک کمپنی بنا لی۔وہ پھر بیرون ملک سے پلاسٹک منگوا کر مقامی کارخانوں کو سپلائی کرنے لگا۔یہ کاروبار چمک اٹھا اور اچھی خاصی آمدن ہونے لگی۔
1991ء میں نرسیمہا راؤ حکومت نے نجی شعبے کو بھی سرکاری منصوبوں میں شریک کر لیا۔یوں بھارتی نظام حکومت میں ایک اور بڑی تبدیلی آئی۔اب چین کی طرح بھارت میں بھی حکومت اور نجی شعبہ مل جل کر ملکی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرنے لگا۔ اس پالیسی سے بھی گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچا۔
اس نے 2001ء میں گجرات کی بندر گاہ مندرہ تیس سال کے لیے لیز پر لے لی۔گوتم نے بڑی سرعت سے بندرگاہ کے آس پاس کی زمینیں خریدیں اور وہاں کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر لگا لیا۔کوئلہ وہ بیرون ممالک سے منگوانے لگا۔پیسا آیا تو اس نے مالیاتی اداروں سے قرضے لیے اور کھانا پکانے کے تیل اور سیمنٹ بنانے والی کمپنیاں خرید لیں۔
بعد ازاں ہوائی اڈے بھی خریدے گئے۔ یوں اڈانی نے دس گیارہ کمپنیاں کھول لیں اور اپنی کاروباری سلطنت بنا ڈالی۔آج اڈانی گروپ بھارت میں ’’12 ‘‘بندرگاہیں اور ہوائی اڈے آپریٹ کر رہا ہے۔اس کا کاروبار بیرون دنیا میں بھی پھیل چکا۔گروپ کی کمپنیوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔
مودی اڈانی گٹھ جوڑ
اڈانی نے 2014ء میں الیکشن مہم چلانے کی خاطر مودی کو وافر پیسا دیا تھا۔ اس کے ہوائی جہاز مودی کے سفر کی خاطر مختص رہے۔انتخابی مہم میں مودی کو ایسا ’’زبردست منتظم‘‘بنا کر پیش کیا گیا جو بہترین معاشی پالیسیاں بنا کر بھارت کو معاشی طاقت بنا سکتا ہے۔
پارلیمانی الیکشن مودی نے جیت لیا۔ اس کی فتح میں مودی کی صلاحیتوں کا عمل دخل کم تھا۔اسے جیت بنیادی طور پہ اس لیے ملی کہ پچھلے چند برس سے کانگریسی حکومت بدترین کارکردگی دکھا رہی تھی۔اس کے بیشتر رہنما کرپشن کر رہے تھے۔عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے ٹھپ ہو چکے تھے۔کانگریسی رہنماؤں کی کرپشن و لالچ وہوس کی بنا پر مودی کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔
وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے اپنے مربی ودوست، گوتم اڈانی پہ نوازشات کی بارش کر دی۔اس کے اثرورسوخ کے باعث ملکی وغیر ملکی مالیاتی ادارے اڈانی کی کمپنیوں کو بھاری قرضے دینے لگے۔یوں اڈانی کو اپنا کاروبار پھیلانے کا سنہرا موقع مل گیا۔
وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا مالک بن بیٹھا۔بجلی گھر اور کوئلے کی کانیں چلانے لگا۔رئیل اسٹیٹ میں بھی داخل ہوا۔غرض قرضے پا کر اڈانی نے مختلف شعبوں میں کمپنیاں اور کارخانے کھول لیے اور بیشتر میں اجارہ دار بن گیا۔
اڈانی کی سات کمپنیوں کے حصص کی خرید وفروخت ممبئی سٹاک ایکس چینج میں ہوتی ہے۔پچھلے تین چار سال کے دوران ان کمپنیوں کے حصص کی مالیت کئی گنا بڑھ گئی۔اس زبردست اضافے میں مودی کی نوازشات ہائے بے جا اور قرضوں کی ریل پیل نے بنیادی کردار ادا کیا۔چناں چہ اڈانی گروپ کی مالیت دسمبر 2022ء تک ’’280 ارب ڈالر‘‘تک پہنچ گئی۔
جبکہ اڈانی کی اپنی دولت کی مالیت ستمبر 22ء میں 150 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔اس ماہ وہ کچھ عرصے کے لیے دنیا کا تیسرا امیر ترین انسان رہا۔جبکہ اسے ایشیا کے امیر ترین فرد ہونے کا اعزاز ملا۔
ہنڈن برگ کے انکشافات
یہی وہ وقت تھا کہ امریکی کمپنی، ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ بم بن کر اڈانی گروپ پر پھٹی جس نے گوتم اور اس کے کاروبار کو خاصا نقصان پہنچایا۔رپورٹ نے گوتم اور اس کے گروپ کی غلط کاریوں کے سلسلے میں تہلکہ خیز انکشافات کیے اور اسے کمپنیوں کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈیا قرار دیا کیونکہ موصوف اربوں ڈالر کے فراڈ میں جو ملوث ہے۔ نمایاں انکشافات درج ذیل ہیں:
٭…گوتم اڈانی اور اس کے رفقائے کار پچھلے کئی عشروں سے بمبئی سٹاک مارکیٹ میں اپنی کمپنیوں کے حصص غیر اخلاقی اور غیر قانونی کم یا زیادہ کرنے میں ملوث ہیں۔اس ناجائز سرگرمی کے ذریعے اربوں کھربوں روپے کمائے گئے۔
٭…اڈانی کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ہیرپھیر کے ذریعے درست اعداد وشمار پوشیدہ رکھنا عام ہے۔اس طریقے سے حقیقی آمدن چھپائی جاتی ہے تاکہ ٹیکس بچایا جا سکے۔مگر یہ غیر اخلاقی و قانونی کام ہے۔ اس ناجائز عمل سے بھی اڈانی پچھلے بیس بائیس سال میں اربوں روپے کی کمائی کر چکا۔مگر یہ کمائی محنت، قابلیت اور ذہانت نہیں دھوکے بازی اور ٖغیرقانونی عمل سے حاصل ہوئی۔
٭… گوتم اڈانی خصوصاً پچھلے تین سال سے ممبئی سٹاک ایکس چینج میں اپنی کمپنیوں کے حصص مختلف چالوں اور ہتھکنڈوں سے ’’819 فیصد‘‘تک بڑھانے میں کامیاب رہا۔ یہی وجہ ہے، 2019ء میں اڈانی کی دولت کی مالیت 20 ارب ڈالر تھی جو صرف تین برس میں بڑھ کر 150 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس کا شمار دنیا کی امیر ترین ہستیوں میں ہونے لگا۔
٭…اڈانی گروپ کی بیشتر کمپنیوں نے بھاری بھرکم قرضے لے رکھے ہیں۔ ان کی مجموعی رقم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ انہی قرضوں کے ذریعے گوتم اڈانی نے اپنا کاروبار پھیلایا۔ مگر اڈانی گروپ قرضوں کا سود یا بذات خود قرضے واپس نہ کر سکا تو سنگین معاشی مسائل میں گرفتار ہو سکتا ہے۔
٭…اڈانی گروپ کی اعلی قیادت میں سے بیشتر ارکان گوتم اڈانی کے بیٹے، بھائی اور قریبی رشتے دار ہیں۔ جبکہ سارے فیصلے خود گوتم کرتا ہے۔ گویا گروپ میں ساری قوت و طاقت کا محور گوتم اور اس کے قریبی عزیز و دوست ہیں۔ کاروباری لحاظ سے یہ طریق عمل خطرناک ہے کیونکہ اجارہ دار کا ایک بھی بڑا غلط فیصلہ گروپ کو مشکلات میں گرفتار کرا سکتا ہے۔
٭…ماضی میں سرکاری ادارے منی لانڈرنگ(غیر قانونی طریقے سے رقم بیرون ملک بھجوانا)، ٹیکس چوری اور رشوت ستانی کے الزامات پر اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات کرتے رہے ہیں۔ خیال ہے کہ درج بالا غیرقانونی سرگرمیوں کے ذریعے اڈانی گروپ نے 17 ارب ڈالر کا زرکثیر ہڑپ کر لیا۔
٭…منی لانڈرنگ کے لیے گوتم اڈانی اور اس کے رفقا نے اندرون و بیرون ملک لاتعداد جعلی (آف شور)کمپنیوں کا نیٹ ورک کھڑا کر لیا۔یہ کمپنیاں مارشیس ، متحدہ عرب امارات ، کئیربین جزائر اور دیگر مقامات پر کھولی گئیں۔کمپنیاں کھولنے کی خاطر ایکسپورٹ امپورٹ کی جعلی دستاویزات تیار کی گئیں۔ بعد ازاں ممبئی سٹاک ایکس چینج سے رجسٹرڈ ساتوں کمپنیوں سے کثیر رقم ان جعلی کمپنیوں میں منتقل کر دی گئی۔یوں اڈانی گروپ نے اربوں کھربوں روپے بھارت سے باہر بھجوا دئیے۔
٭… 2004 ء میں بھارتی سرکاری ادارے، ڈائرکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے گوتم کے چھوٹے بھائی، راجیش اڈانی پر ہیروں کی درآمد برآمد کرتے ہوئے جعل سازی اور فراڈ کا الزام لگایا تھا۔ حکومت کی رو سے راجیش نے بیرون ممالک جعلی کمپنیوں کھول رکھی تھیں تاکہ اپنے کاروبار کے ٹرن اوور کو زیادہ دکھایا جا سکے۔
اس فراڈ پر راجیش کو دو بار گرفتار بھی کیا گیا۔لیکن بڑے بھائی کے تعلقات اور ججوں کوبھاری رقم دینے کی وجہ سے راجیش سبھی مقدمات میں بری ہو گیا۔ بعد ازاں اسے اڈانی گروپ کا مینجنگ ڈائرکٹر بن دیا گیا۔ایسا صرف بھارت ہی میں ممکن ہے کہ ایک دھوکے باز اور فراڈئیے کو کاروبار چلانے کی ذمے داری سونپ دی گئی۔
٭… ڈائرکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس کے مطابق ہیروں کی درآمد برآمد کے کاروبار میں گوتم اڈانی کا سالا، سمیر وورا بھی ملوث تھا۔ اس نے ڈائرکٹوریٹ کی تحقیقات کے دوران کئی جھوٹ بولے۔ اس دروغ گو کو بھی بعد میں گوتم نے اڈانی آسٹریلیا ڈویژن کا ایگزیکٹو ڈائرکٹر بنا دیا۔
٭… گوتم اڈانی کے کالے دھندوں میں اس کا بڑا بھائی، ونود اڈانی بھی شامل ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ونود ایک پُراسرار ہستی ہے۔ وہ کسی سے ملتا جلتا نہیں اور اپنی سرگرمیاں پوشیدہ رکھتا ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ بیرون ممالک کھولی گئیں بیشتر جعلی کمپنیاں ونود ہی چلاتا ہے۔ اسی لیے بھارتی تحقیقاتی ادارے موصوف کے خلاف بھی کئی بار چھان بین کر چکے۔
ہیرو تو زیرو نکلا
امریکی کمپنی کی رپورٹ آتے ہی اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی مالیت گرنے لگی۔ چند دن میں ان کی مالیت ’’100 ارب ڈالر‘‘سے زائد گر گئی۔اسی طرح گوتم اڈانی کی دولت بھی تیزی سے کم ہوئی۔تاحال وہ 39 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
یوںہنڈن برگ کی رپورٹ نے اڈانی گروپ کو کافی نقصان پہنچا دیا۔پچھلے تین چار سال سے مودی حکومت گوتم اڈانی کو بھارت کی معاشی ترقی کا استعارہ اور نشانی بنا کر پیش کررہی تھی۔دعوی کیا گیا کہ وہ اپنی بیش بہا صلاحیتوں سے 2030ء تک بھارت کو سپر پاور بنا دے گا۔لیکن انکشاف انگیز امریکی رپورٹ نے دنیا والوں پہ اجاگر کیا کہ مودی حکومت کا ’’ہیرو‘‘اور ’’سپر مین‘‘تو ایک دغا باز، دھوکے باز اور فراڈیا ہے۔
اسی لیے اس انکشاف سے بھارت، مودی اور اڈانی کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔مودی کے صاف ستھرے لیڈر ہونے کا تصّور ختم ہوا اور اس کی اصلیت عیاں ہو گئی…یہی کہ وہ ایک عیّار ومکار اور دھوکے باز انسان ہے۔اس باعث اڈانی جیسے مہا فراڈیوں کو دوست بناتا اور ابھارتا ہے۔