اطہر مسعود وانی
ہندوستانی حکومت نے1984میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کو بلو سٹارنامی آپریشن کے ذریعے فوجی حملے میں بری طرح تباہ کر تے ہوئے ایک ہی دن میں 5ہزار سے زائد سکھوں کو ہلاک کر دیا جن میں بڑی تعداد میں سکھ زائرین خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس آپریشن میں ہندوستانی فوج نے ٹینکوں کے علاوہ ہر قسم کے بڑے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے گولڈن ٹیمپل کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔اس کے ساتھ ہی مشرقی پنجاب میں3ڈویژن فوج کی مدد سے42گوردواروں پہ بھی حملے کرتے ہوئے اسی طرح قتل و غارت گری کی گئی جس طرح گولڈن ٹیمپل میں وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔اس کے بعد پنجاب بھر میں خالصتان تحریک کے حامیوں کو ہلاک کرنے کی ایک بڑی مہم شروع کی گئی اور اس دوران بھی ہزاروں سکھوں کو بیدردی سے ہلاک کیا گیا۔گولڈن ٹیمپل کو تباہ کرنے کے بعد وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دو سکھ فوجی باڈی گارڈز نے وزیر اعظم اندراگاندھی کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد تمام ہندوستان میں ہزاروں سکھوں کو مسلح ہندو جتھوں نے وحشیانہ تشدد سے ہلاک کیا گیا، صرف دہلی میں تین ہزار سے زائد سکھ ہلاک کئے گئے۔سکھوں کے قتل عام کی اس طویل مہم کے ذریعے ہندوستان میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کی قیام کی تحریک کو وقتی طور پر دبا دیا گیا تاہم کینڈا، امریکہ اوربرطانیہ سمیت یورپ بھر میں مقیم سکھوں میں ہندوستان کے خلاف نفرت اور بیزاری میں نمایاں اضافہ ہوا اور خالصتان کے حق میں سیاسی تحریک تیز سے تیز ہوتی گئی۔ہندوستانی حکومتوں نے سکھوں کے حقوق کو دبانے کے لئے سکھوں کے قتل اور غارت گری کی طویل مہم کے بعد سکھوں کے خلاف سیاسی اقدامات بھی کئے جس کے تحت مشرقی پنجاب کے صوبے کو تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مشرقی پنجاب کے وسیع علاقے ملحقہ صوبوں میں مدغم کر دیئے گئے۔ہندوستانی حکومت کی ان ظالمانہ کاروائیوں کے باوجود سکھوں میں خالصتان تحریک کے شہید رہنما ئوں کو سکھوں کے مقدس قومی رہنمائوں کا درجہ حاصل ہو گیا۔چند سال قبل سے ہندوستان میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان تحریک ایک بار پھر سامنے آئی ہے۔اس تحریک میں ہندوستانی پولیس وغیرہ کے مراکز پہ حملے بھی ہوئے تاہم خالصتان تحریک کی سیاسی تحریک نمایاں ہے۔
دوسری طرف ہندوستانی حکومت نے ریاست پنجاب میں وارث پنجاب دے نامی تنظیم کے صدر امرت پال سنگھ، جسے سکھوں کے مقبول عام شہید رہنما جرنیل سنگھ بھڈرانوالہ کا جانشین قرار دیا جا رہا ہے اور خالصتان تحریک کے رہنما امرت پال سنگھ کے حامیوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کرتے ہوئے ڈیڑھ سوسے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ہندوستانی پولیس نے پہلے میڈیا کو بتایا کہ امرت پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم بعد میں کہا گیا کہ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ہندوستانی حکام کے ان متضاد بیانات سے یہ اندیشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ ہندوستانی حکام کے ہاتھوں سکھوں کے مقبول عام رہنما امرت پال سنگھ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔تاہم اطلاعات یہی ہیں کہ امرت پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت سکھوں میں امرت پال سنگھ کی تیزی سے بڑہتی مقبولیت اور مشرقی پنجاب میں خالصتان کے حق میں وسیع پیمانے پہ پائی جانے والی حمایت سے شدید پریشانی کا شکار ہے۔
پنجاب کے اکثر اضلاع میں بڑی تعداد میں پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کرتے ہوئے دفعہ144کا نفاذ کیا گیا ہے اور انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا ہے۔پولیس نے امرت پال سنگھ کے بزرگ والد، چچا اور دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کرنے کے علاوہ چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔پولیس نے چھاپوں کا سلسلہ تیز کرتے ہوئے فیروز پور، بھٹنڈہ، روپ نگر، فرید کوٹ، بٹالہ، فاضلکا، ہوشیار پور، گرداس پور، موگا اور جالندھر سمیت کئی مقامات پر فلیگ مارچ کیا۔بی بی سی کے مطابق مشرقی پنجاب کے متعدد مقامات پہ ہندوستان کی ان کاروائیوں کے خلاف سکھوں کے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔امرت پال سنگھ کی گرفتاری کی کوششوں اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کی گرفتاریوں اور چھاپوں سمیت سخت کریک ڈائون کی ہندوستانی حکومت کی کاروائیوں کے خلاف مشرقی پنجاب کے علاوہ ہندوستان بھر میں رہنے والے سکھوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور دنیا بھر میں مقیم سکھوںمیں بھی ہندوستان کے خلاف غصہ پایا جا رہا ہے۔
پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (ہیڈکوارٹر) سکھ چین سنگھ گل نے پیر کو پریس کانفرنس میں کہا کہ ہندوستان حکومت سے تحریری طورپر کہا گیا ہے کہ سکھ رہنما امرت پال سنگھ سمیت وارث پنجاب دے نامی تنظیم کے پانچ افراد ، دلجیت سنگھ کلسی، بھگونت سنگھ، گرمیت سنگھ اور باجیکے کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرتے ہوئے سخت ترین کاروائی کی جائے۔آئی جی پولیس نے مزید کہا کہ حالات پر قابو پانے کے لئے پنجاب کے تمام شہروںمیں پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس کے فلیگ مارچ جاری ہیں۔ہندوستانی حکام کی ان کاروائیوں کے خلاف پیر20مارچ کو مشرقی پنجاب کے کئی علاقوںمیں سکھوں کے مظاہرے ہو ئے ہیں جن میں خالصتان کے علاوہ کشمیر کی بھی ہندوستان سے آزادی کی تحریک کی حمایت میں نعرے لگائے گئے ہیں۔ان مظاہروں میں سکھ نمائندوں نے تقاریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ 20 مارچ 2000 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں ہندوستانی فوج کی سرپرستی میں کام کرنے والے بندوق برداروں نے 36سکھوں کو ایک گردوارے میں لے جاکر بیدردی سے ہلا ک کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سکھ اور کشمیری ہندوستانی حکومت کی اس طرح کی ہر سازش سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب سکھ اور کشمیری ہندوستان سے آزادی حاصل کر لیں گے۔
19مارچ کو آسٹریلیا میں سکھوں نے خالصتان کے حق میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا جس میں ہزاروں سکھوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ ڈالے۔آسڑیلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے اعلان کے بعد ہندوستانی حکومت نے آسٹریلیا کی حکومت نے سکھوں کے اس ریفرنڈم پر پابندی عائید کرنے کا مطالبہ کیا لیکن آسڑیلین حکومت نے اسے ایک سیاسی عمل قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پابندی عائید کرنے کے ہندوستانی مطالبے کو مسترد کر دیا۔وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے رابطہ کرنے پر آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی سے جواب دیا کہ ان کی حکومت آسٹریلیا میں خالصتان نواز سکھوں کے اظہار رائے کے قانونی حق کو نہیں روک سکتی۔ساتھ ہی آسٹریلین حکومت نے اپنے ٹرویل ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو ہندوستان کا دورہ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
برسبین میں منعقد ہونے والے اس ریفرنڈم میں ہزاروں سکھو ں نے مشرقی پنجاب کی ہندوستان سے آزادی اور سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کے قیام کے حق میں ووٹ ووٹ دیئے۔خالصتان کے حامی سکھوں نے برسبن میں اعزازی بھارتی قونصل خانے کو احتجاجا زبردستی بند کرادیا۔اسی سال29جنوری کو آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں سکھ فار جسٹس نامی عالمی تنظیم کے زیر اہتمام خالصتان کے حق میں ریفرنڈم ہوا جس میں 60 ہزار سے زائد سکھوں نے آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دیا۔برسبین میں خالصتان ریفرنڈم شروع ہوتے ہی ہندوستانی ہیکرز کی طرف سے ریفرنڈم کے عمل کے خلاف سائبر حملے کئے گئے لیکن وقتی خلل کے باوجود ریفرنڈم کا عمل کامیابی سے مکمل ہوا۔برسبین میں ووٹنگ سینٹر کے علاقے کی اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک جام تھی اور ریفرنڈم میں شریک افراد کا جوش و خروش قابل دید تھا ۔ گزشتہ سال کینڈا میں بھی خالصتان کے حق میں ریفرنڈم کا کامیابی سے انعقاد ہوا جس میں بھی ہزاروں سکھوں نے جوش و خروش سے ہندوستان میں مشرقی پنجاب پر مشتمل سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کے قیام کے حق میں ووٹ دیئے۔ہندوستانی حکومت نے اس وقت بھی کینیڈا حکومت سے خالصتان ریفرنڈم پر پابندی عائید کرنے کی درخواست کی تھی لیکن کینیڈا حکومت نے اسے سیاسی عمل قرار دیتے ہوئے خالصتان ریفرنڈم پر پابندی عائید کئے جانے سے انکار کر دیا تھا۔
کینیڈا، امریکہ ،برطانیہ سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی ہندوستان کے خلاف سکھوں کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔لندن میں انڈین ہائی کمیشن کے سامنے سکھوں کا ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اس دوران سفارتخانے کی عمارت سے ہندوستانی جھنڈا اتار کر خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔مظاہرین نے خالصتان تحریک کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس واقعہ پرنئی دہلی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کرسٹینا سکاٹ کو وزارت خارجہ طلب کر کے انڈین حکومت نے اس واقعے پر وضاحت طلب کی ہے۔ہندوستانی حکام اس بات پہ شدید پریشانی کا شکار ہیں کہ کینیڈا، امریکہ ، برطانیہ، جرمنی اور آسڑیلیا کی حکومتیں ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کے باوجود سکھوں کے معاملے میں ہندوستانی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے خالصتان تحریک کے حوالے سے سکھوں کی مدد کر رہے ہیں۔اس معاملے میں ہندوستان اپنی سفارتی ناکامی پہ بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔
سکھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں سکھوں کو ہندوستانی ریاست اور ہندو قوم پرست جماعتوں کے ہاتھوں ظلم اور جبر کی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سکھوںکے حقوق کی نفی کی جا رہی ہے اور انہیں سرکاری کاروائیوں کے ذریعے گرفتاریوں، قید اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہندوستانی حکومت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے بھرپور کاروائیوں کے باوجود سکھوں میں خالصتان تحریک کی حمایت روکنے میں بری طرح ناکامی سے دوچارہوئی ہے اور اسی تناظر میں اب انہوں نے سکھوں کے خلاف کریک ڈائون کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ہندوستانی حکومت کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، جرمنی سمیت یورپی ممالک میں مقیم سکھوں کے خلاف ہمہ گیر کاروائیاں بھی شروع کر چکی ہے۔ہندوستانی حکومت کی سکھوں کے خلاف ان کاروائیوں کا مقصد کیا ہے؟ہندوستانی حکومت اس سے پہلے مسلمانوں،دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے ہندو ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کا سیاسی حربہ کامیابی سے استعمال کر رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ ایسا ہی سکھوں کے خلاف کرنے سے پنجاب میں بھی ہندو غلبے کی ترویج کی جا سکتی ہے۔ہندوستانی تھنک ٹینکس ہندوستانی حکومت کو سکھوں کے خلاف ہمہ گیر کاروائیوں کی تجاویز تیا رکر کے دی ہیں۔سکھوں کے خلاف غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد کی طرح کی پروپیگنڈہ مہم بھی تیز کی گئی ہے جس طرح1984میں سکھوں کی جائز تحریک آزادی کے خلاف بے بنیاد جھوٹا پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی تھی۔اس تمام صورتحال سے یہ ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب میں دھماکہ خیز صورتحال ہے اور اب ہندوستانی حکومت کو سکھوں کی طرف سے ایک مضبوط مزاحمتی تحریک کا سامنا ہے جسے وسیع پیمانے پہ سکھوں کی سیاسی حمایت بھی حاصل ہے۔
اطہر مسعودوانی
03335176429