اتوار‬‮   24   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

آزادکشمیرمردم شماری اورقوم پرستوں کی پروپیگنڈہ مہم

       
مناظر: 362 | 25 Mar 2023  

عمرفاروق /آگہی

آج کل ادارہ شماریات ملک بھر میں ساتویں مردم شماری کے کام میں مصروف ہے۔ اس مہم کے تحت خانہ شماری اور مردم شماری کا کام مکمل کیا جائے گا۔اسی خانہ شماری اور مردم شماری کے نتیجے میں جمع ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر پالیسی ساز تمام شعبوں کے لیے جامع اور مئوثرپالیسیاں مرتب کریں گے تاکہ پائیدار ترقی اور جدید انفرااسٹرکچر کی منصوبہ بندی کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ان ہی اعدادوشمار کی بنیاد پر صوبوں اور شہروں سمیت نچلی سطح تک قومی دولت اور وسائل کو تقسیم کیا جائے گا تاکہ ملک کے کونے کونے تک رہنے والے عوام ترقی اور خوشحالی سمیت اس کے تمام ثمرات سے استفادہ کرسکیں۔ملک میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری میں خود شُماری کرانے کے طریقہ کار کے حوالے سے کچھ ٹیکنیکل مسائل ہیں ، ناتجربہ کار عملہ اور ادارہ جاتی محدود وسائل اس کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔کچھ سیاسی جماعتوں کے اعتراضات بھی ہیں اس کے باوجود یہ اہم پیش رفت ہے آزادکشمیرمیں ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے بھی کچھ جماعتوں اورافرادکی طرف سے چند اعتراضات سامنے آئے اورقوم پرستوں کی طرف سے مردم شماری کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی سوشل میڈیاپراس حوالے سے منفی پروپیگنڈہ بھی کیاجارہاہے مگریہ بائیکاٹ مہم اورمنفی پروپیگنڈہ پزیرائی حاصل نہیں کرسکا کیوں کہ آزادکشمیرکے عوام قوم پرستوں پراعتبارنہیں کرتے حالانکہ ڈیجٹیل مردم شماری کے حوالے سے بعض اعتراضات سنجیدہ نوعیت کے ہیں اوراس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کادورہونابھی ضروری ہے ،آئیں ہم دیکھتے ہیں کہ مردم شماری کے حوالے سے جواعتراضات سامنے آئے ہیں ان کی حقیقت کیاہے ؟سب سے پہلااعتراض مردم شماری کے لیے جاری فارم کے خانہ نمبرآٹھ میں قومیت کے زمرے میں کشمیری شہریوں کے علیحدہ شناخت کے طور پر اندراج نہ ہونے کے حوالے سے ہے یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے رہنماء اورقائدحزب اختلاف چوہدری لطیف اکبرکی طرف سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظوری کے بعد چار رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جو حکومت پاکستان اور ادارہ برائے شماریات کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گی۔ چوہدری لطیف اکبر نے اپنی قرارداد میں کہاہے کہ مردم شماری فارم کے سوال نمبر آٹھ کے سامنے باشندہ ریاست جموں کشمیر جبکہ مادری زبان کے سوال نمبرسات کے سامنے پہاڑی اور گوجری کا آپشن بھی شامل کیا جائے۔سوال یہ ہے کہ پہاڑی یاگوجری زبانیں ہمارے نصاب میں شامل ہیں ؟یاان زبانوں میں لکھا اورپڑھاجاتاہے ؟اس حوالے سے ادارہ شماریات کاکہناہے کہ مردم شماری فارم کے خانوں میں جو کچھ درج ہونا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کرتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے تحت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ادارہ شماریات کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی وجہ سے آزادکشمیر کی مشترکہ مفادات کونسل میں کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے ۔ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے بہت سے شہری روزگار،کاروباریاتعلیم کی غرض سے پاکستان کے مختلف شہروں میں آبادہیں وہ جہاں مقیم ہیں وہیں شمارہوں گے ،یوں یہ آبادی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آبادی کے طورپر شمار نہیں کی جائے گی۔ اگر ان کی قومیتی شناخت کو بھی فارم میں شامل نہیں رکھا جائے گا تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا کہ کل آبادی کتنی ہے۔ جو آبادی بیرون ملک ہے، ان میں سے صرف انہی لوگوں کو اس ڈیٹا میں شمار کیا جائے گا، جن کے خاندان یہاں آباد ہیں۔ تاہم جو پورے خاندان بیرون ملک مقیم ہیں، انہیں اس ڈیٹا میں شمار نہیں کیا جائے گا۔اس کے علاوہ کشمیری مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی مستقل طور پر پاکستان میں مقیم ہے۔مردم شماری میں وہ بھی جس علاقے میں مقیم ہیں وہیں شمارہوں گے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں رائے شماری ہونی ہے۔ جب مردم شماری میں کشمیریوں کوالگ شناخت کے طورپرشامل نہیں کیاجائے گا توکشمیریوں کی درست تعدادکیسے ظاہرہوگی ؟پہلی بات یہ ہے کہ مردم شماری کارائے شماری سے کوئی تعلق نہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ کس نے کہاکہ یہ ڈیٹارائے شماری کے لیے استعمال کیاجائے گا تیسری بات یہ ہے کہ یہ ڈیٹا اقتصادی اور ترقیاتی منصوبہ بندی سمیت دیگر داخلی فیصلہ سازی کیلئے جمع کیا جاتا ہے تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوسکے ،مزیدیہ کہ پاکستان نے کب کہاہے کہ مردم شماری کے اعدادوشماراقوام متحدہ میں پیش کیے جائیں گے ؟ادارہ شماریات اس کی متعددباروضاحت کرچکاہے کہ مردم شماری کا ڈیٹا استصواب رائے کیلئے استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔یہ بھی مودی حکومت ایک ہتھیارہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے درمیان نفرت بڑھکانے کے لیے مختلف نعرے دیے جاتے ہیں اوراس کے لیے مختلف لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں خاص کرکے بیرون ملک بیٹھے مفروراس پروپیگنڈے میں اہم مہرے کے طورپرکام کرتے ہیں گزشتہ دنوں اس مذم مہم اورپروپیگنڈے کے لیے ایک خود ساختہ جلاوطن شخص ڈاکٹر امجد ایوب مرزا بھی سامنے آئے ۔ 1995سے برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر امجد ایوب مرزانے جو وہاں بائیں بازو کے سیاست دانوں کی حامی ہیں ایک اداریے میں “مدر انڈیا کا لفظ استعمال کیاہے،جو انکی بھارت سے محبت اور اس سے روابط کا واضح ثبوت ہے ۔ ڈاکٹر مرزا کی جانب سے آرٹیکل میں آزاد کشمیر کے عوام کی مردم شماری سے متعلق جھوٹا دعوی کیا گیا اورمنفی پروپیگنڈہ کیااورآزادکشمیروپاکستانی عوام واداروں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی ۔ آزاد کشمیر کے شہریوں کو پاکستان میں کہیں بھی جائیداد خریدنے اور بیچنے کی اجازت ہے جبکہ پاکستانی عوام کوآزاد کشمیر میں ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، جو ڈاکٹرمرزا کے دعووں کی واضح طور پر نفی کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے۔اس کے برعکس بھارت نے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کیے گئے وعدوں کویکسر نظر انداز کررہاہے ۔مگرقوم پرستوں کے پیٹ میں کبھی مروڑنہیں اٹھی اورنہ ایوب مرزاجیسے مہرے اس حوالے سے کوئی آوازاٹھاتے ہیں ۔بھارت 5اگست 2019کے بعد سے اپنے شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر کے بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ علاقوں میں مستقل طور پر آباد ہونے کی اجازت دی ہے نئے ڈومیسائل قانون کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا ان میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں بھی شامل ہیں،25لاکھ سے زائدہندو ووٹربنادیئے گئے ہیں جبکہ چارسے پانچ لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں،یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی سرکار نے ہندوتوا نظریہ کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آبادی تناسب اپنے حق میں کرنے کے لیے گزشتہ سال ہونے والی مردم شماری 2026 تک ملتوی کردی ہے ۔ دس سال قبل 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68 فیصد حصہ مسلمانوں کا تھا جبکہ 28 فیصد ہندووں اور 4 فیصد سِکھ اور بدھ مت کے پیرو کار تھے۔دوسری طرف مردم شماری پراعتراضات دورکرنے کے حوالے سے آزادکشمیرحکومت کی قائم کردہ کمیٹی سے وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمرزمان کائرہ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں جاری مردم شماری سے متعلق آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کے تحفظات کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی، اور اس ضمن میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے قائم شدہ کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون آزاد کشمیر فہیم ربانی، ایم ایل اے احمد رضا قادری، ایم ایل اے دیوان علی خان، ایم ایل اے فیصل راٹھور کے علاوہ وزارت خارجہ، داخلہ، ادارہ شماریات اور دیگر اعلی عہدیداران نے شرکت کی۔اس سے قبل آزاد کشمیر کے وزیر قانون فہیم ربانی اور کمیٹی کے دیگر ارکان نے آزاد کشمیر میں جاری مردم شماری میں شہریت، زبان اور سکونت کے حوالے سے اپنے تحفظات سے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا اور کہا کہ آزاد کشمیر میں جاری مردم شماری میں موجود ابہام اور تحفظات سے آزاد کشمیر کی سیاسی اور مالیاتی صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ادارہ شماریات کے چیف سٹیٹیشن نے اجلاس کے شرکا کو آزاد کشمیر میں جاری مردم شماری کے متعلق تکنیکی اور انتظامی صورتحال اور مینڈیٹ سے آگاہ کیا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0