میں خود کو انڈین نہیں سمجھتا۔ میرے پاس جو پاسپورٹ ہے وہ مجھے ہندوستانی نہیں بناتا۔ یہ صرف ایک دستاویز ہے جس کے ساتھ سفر کرنا ہے۔‘یہ الفاظ خالصتان کے حامی امرت پال سنگھ کے ہیں جو ’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ ہیں۔
امرت پال سنگھ نے حال ہی میں خالصتان کا مطالبہ کیا ہے اور وہ تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت وہ کئی مجرمانہ مقدمات درج ہونے کے بعد مفرور ہے۔ حالیہ سماجی و سیاسی ہلچل کے درمیان پنجاب سے ایک اہم سوال ابھرا کہ آخر خالصتان کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟
جب بھی سکھوں کی خود مختاری یا خالصتان کا مطالبہ اٹھتا ہے، سب کی توجہ بھارتی پنجاب کی طرف مبذول ہوتی ہے۔گرو نانک دیو کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب آج کے پاکستان میں ہے۔ یہ علاقہ غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھا جس کی وجہ سے اسے سکھوں کی مادر وطن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انڈیا میں سکھوں کی بغاوت یا مسلح جدوجہد کا دور 1995 میں ختم ہوا۔
حالیہ دنوں میں اکالی دل کے رکن پارلیمنٹ سمرن جیت سنگھ مان اور دل خالصہ جمہوری اور پرامن طریقے سے اس کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
امریکہ میں کام کرنے والی تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ نے بھی خالصتان کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، ان تمام تنظیموں کو انڈین پنجاب میں صرف ایک محدود حمایت حاصل ہے۔
خالصتان کا مطالبہ سب سے پہلے کب کیا گیا؟
خالصتان کا لفظ پہلی بار سنہ 1940 میں سامنے آیا تھا۔ اسے ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے مسلم لیگ کے لاہور مینیفیسٹو کے جواب میں ایک پمفلٹ میں استعمال کیا۔
اس کے بعد، اکالی رہنماؤں نے 1966 میں لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تنظیم نو سے پہلے، 60 کی دہائی کے وسط میں پہلی بار سکھوں کی خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا۔
سنہ 70 کی دہائی کے اوائل میں چرن سنگھ پنچی اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے پہلی بار خالصتان کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے 70 کی دہائی میں برطانیہ کو اپنا اڈہ بنایا اور امریکہ اور پاکستان بھی گئے۔
سنہ 1978 میں چندی گڑھ کے کچھ نوجوان سکھوں نے خالصتان کا مطالبہ کرتے ہوئے دل خالصہ تشکیل دی.
سکھوں کی مسلح تحریک کا پہلا مرحلہ گولڈن ٹیمپل یا سری دربار صاحب کمپلیکس پر حملے کے ساتھ ختم ہوا، جو کمپلیکس کے اندر موجود عسکریت پسندوں کو بھگانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسے 1984 میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مسلح جدوجہد کے دوران زیادہ تر عسکریت پسندوں نے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا۔ حالانکہ اس آپریشن کے دوران جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے مارے گئے تھے۔
انھوں نے خالصتان یا علیحدہ سکھ قوم کے مطالبے کے بارے میں کبھی واضح طور پر بات نہیں کی۔ ’حالانکہ انھوں نے کہا تھا کہ اگر سری دربار صاحب پر فوجی حملہ ہوتا ہے تو یہ خالصتان کی بنیاد رکھے گا۔‘
انھوں نے سنہ 1973 کی سری آنند پور صاحب قرارداد کے نفاذ پر اصرار کیا جسے اکالی دل کی ورکنگ کمیٹی نے منظور کیا تھا۔
آنند پور صاحب قرارداد کیا ہے؟
سنہ 1973 کی آنند پور صاحب کی قرارداد نے اپنا سیاسی ہدف اس طرح بیان کیا ’ہمارے پنتھ (سکھ مت) کا سیاسی ہدف بلاشبہ سکھ تاریخ کے صفحات، خالصہ پنتھ کے دل اور دسویں گرو کے احکام میں موجود ہے۔ خالصہ کی بالادستی، شرومنی اکالی دل کی بنیادی پالیسی جیو پولیٹیکل ماحول اور ایک سیاسی نظام کی تشکیل کے ذریعے خالصہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔‘
اکالی دل ہندوستان کے آئین اور ہندوستان کے سیاسی ڈھانچے کے تحت کام کرتا ہے۔ آنند پور صاحب کی قرارداد کا مقصد سکھوں کے لیے ہندوستان کے اندر ایک خود مختار ریاست بنانا ہے۔ یہ قرارداد الگ ملک کا مطالبہ نہیں کرتی۔
سنہ 1977 میں، اکالی دل نے ایک پالیسی ہدایتی پروگرام کے حصے کے طور پر جنرل باڈی کے اجلاس میں اس قرارداد کو منظور کیا۔
اگلے ہی سال اکتوبر 1978 میں، اکالی دل لدھیانہ کانفرنس میں اس تجویز پر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کانفرنس کے وقت اکالی دل کی حکومت تھی۔
خود مختاری سے متعلق قرارداد نمبر ایک شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر گروچرن سنگھ ٹوہرا نے پیش کی تھی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے اس کی حمایت کی تھی۔
قرارداد نمبر ایک کو آنند پور صاحب کی قرارداد کا 1978 ورژن کہا جاتا ہے۔
آنند پور صاحب قرارداد 1978
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’شرومنی اکالی دل محسوس کرتا ہے کہ ہندوستان مختلف زبانوں، مذاہب اور ثقافتوں کی ایک وفاقی اور جغرافیائی اکائی ہے۔ جمہوری روایات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ پہلے سے طے شدہ اصولوں اور مقاصد کے مطابق مرکز اور ریاستوں کے تعلقات اور اختیار کو از سر نو متعین کرکے آئینی ڈھانچے کو ایک وفاقی شکل دینا اور اقتصادی ترقی کی راہ کو آسان بنانا۔‘
خالصتان کا مطالبہ باقاعدہ طور پر کب اٹھایا گیا؟
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔
اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ’اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ’خالصتان‘ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔‘
’ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔‘
انڈین پولیس سروس کے سابق آئی پی ایس افسر سمرن جیت سنگھ مان نے 1989 میں جیل سے رہائی کے بعد یہ مسئلہ اٹھایا۔ لیکن اس کے رویے میں بہت سے تضادات دیکھے جا سکتے تھے۔
اب وہ سنگرور سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور انھوں نے ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھایا ہے۔ تاہم پارلیمنٹ کے باہر انٹرویوز میں انھوں نے خالصتان کی وکالت کی۔
خالصتان کو لے کر اکالی دل کا کیا موقف ہے؟
سال 1992 میں، یہ مسئلہ اکالی دل کے سرکردہ لیڈروں نے باضابطہ طور پر اٹھایا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے 22 اپریل 1992 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک یادداشت بھی پیش کی۔
میمورنڈم کے آخری پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ ’پنجاب کی غیر آبادکاری سکھوں کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ اور آزادی کی بحالی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ سکھ، دنیا کی تمام آزاد اقوام کی طرح ایک قوم ہیں۔‘
’عوام کے آزادی میں رہنے کے حق کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلامیہ کے مطابق، سکھوں کو بھی امتیازی سلوک، استعمار، غلامی اور مخالف سیاست کے طوق سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی آزاد شناخت بحال کر سکیں۔‘
اس میمورنڈم کو سونپنے کے دوران سمرن جیت سنگھ مان، پرکاش سنگھ بادل اور اس وقت کے شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر گروچرن سنگھ ٹوہرا موجود تھے۔
اس کے بعد پرکاش سنگھ بادل اور گروچرن سنگھ ٹوہرا نے کبھی اس میمورنڈم کا ذکر نہیں کیا۔ اکالی دل کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر پرکاش سنگھ بادل نے کہا کہ اب سے اکالی دل نہ صرف سکھوں بلکہ پنجاب کے تمام لوگوں کی نمائندگی کرے گا۔ حالانکہ یہ کوئی رسمی قرارداد نہیں تھی۔
امرتسر اعلامیہ کیا تھا؟
سنہ 1994 میں سمرن جیت سنگھ مان کی اکالی دل (امرتسر) نے دوبارہ سیاسی مقاصد قائم کر لیے۔ جبکہ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی اس دستاویز پر دستخط کیے۔ پرکاش سنگھ بادل دستخط کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔
یہ دستاویز جسے امرتسر اعلامیہ بھی کہا جاتا ہے، یکم مئی 1994 کو سری اکال تخت صاحب کی سرپرستی میں دستخط کیے گئے۔
اس دستاویز کے مطابق ’شرومنی اکالی دل کا ماننا ہے کہ انڈیا مختلف ثقافتوں کا ایک برصغیر ہے۔ ہر ثقافت کا اپنا ورثہ اور مرکزی دھارے ہیں۔‘
’برصغیر کو ایک وفاقی ڈھانچے کے تحت دوبارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ثقافت پھلے پھولے اور دنیا کے باغ میں ایک الگ خوشبو چھوڑے۔‘
’اگر اس طرح کی تنظیمی تنظیم نو حکومت ہند کو قبول نہیں ہے تو پھر شرومنی اکالی دل کے پاس خالصتان کا مطالبہ کرنے اور جدوجہد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
اس دستاویز پر کیپٹن امریندر سنگھ، جگ دیو سنگھ تلونڈی، سمرن جیت سنگھ مان، کرنل جسمیر سنگھ بالا، بھائی منجیت سنگھ اور سرجیت سنگھ برنالہ نے دستخط کیے تھے۔
دنیا کے نقشے پر خالصتان کا مطالبہ
اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں جو اس مسئلے کو مسلسل اٹھا رہی ہیں، لیکن پنجاب میں انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔
سکھس فار جسٹس امریکہ میں مقیم ایک گروپ ہے۔ انڈین حکومت نے 10 جولائی 2019 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔
اس کے ایک سال بعد 2020 میں انڈین حکومت نے خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دیا اور تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیں۔
سکھس فار جسٹس کے مطابق ان کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے، جس کے لیے گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سکھس فار جسٹس کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے، جو پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے لا گریجویٹ ہے۔ وہ امریکہ میں قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں۔
گروپتونت سنگھ پنوں گروپ کے قانونی مشیر بھی ہیں۔ انھوں نے خالصتان کی حمایت میں ’ریفرنڈم 2020‘ کرانے کی مہم شروع کی۔ اس تنظیم نے کینیڈا اور دیگر کئی حصوں میں رائے شماری کروائی لیکن اسے بین الاقوامی سیاست میں کوئی خاص ترجیح نہیں ملی۔
اکال تخت کے جتھیداروں کا عہدہ
امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں واقع اکال تخت سکھ مت کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس کے سربراہ کو جتھیدار کہا جاتا ہے اور وہ چار دیگر تختوں کے سربراہوں کے ساتھ مل کر سکھ برادری سے متعلق اہم معاملات پر اجتماعی طور پر فیصلے کرتا ہے۔سال 2020 میں آپریشن بلیو اسٹار کی برسی کے موقع پر اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ خالصتان کا مطالبہ جائز ہے۔
صحافیوں سے بات چیت کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’سکھوں کو وہ جدوجہد یاد ہے، دنیا میں کوئی سکھ ایسا نہیں ہے جو خالصتان نہ چاہتا ہو، اگر ہندوستان کی حکومت خالصتان دیتی ہے تو ہم کریں گے۔‘(جگتار سنگھ ،سینیئر صحافی)