اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) یورپ میں بسنے والی سکھ کمیونٹی کے سیکڑوں افراد پر مشتمل جسٹس فار سکھ ریلی آج یورپی دارالحکومت برسلز پہنچ گئی۔ جہاں یورپی پارلیمنٹ کے سامنے اس نے ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کر لی۔ مظاہرے اور ریلی میں بیلجیئم سمیت یورپ کے دیگر ممالک سے سکھ کمیونٹی نے شرکت کرکے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ احتجاجی مظاہرے کے مقررین نے کہا کہ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتوں کو ہندو انتہا پسند گروپوں اور حکومت کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مقررین کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں مودی سرکار سکھ نوجوانوں کو بلا وجہ پنجاب میں نظر بند کرکے ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔ یہ جابرانہ فعل ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں سکھ کمیونٹی کے حق کی بات کرنے والوں اور خالصتان کا نام لینے والوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر قید کیا جاتا ہے اور عدالتوں کی جانب سے دی جانی والی سزا کے بعد بھی قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا جو کہ جینیوا کنونشن اور بین القوامی قوانین کے خلاف اور سراسر غیر آئینی غیر قانونی ہے۔
اس موقع پر مظاہرین نے بھارتی حکومت کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جس پر بھارتی مظالم کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ جبکہ پلس لکسمبرگ اسکوائر پر سکھ تحریک کے دوران ہلاک اور گرفتا راہنماؤں کی بڑی تصاویر بھی آویزاں کی گئی تھیں۔ احتجاج میں شامل مقررین کا کہنا تھا کہ عالمی برادری خصوصاً یورپی یونین بھارت میں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر نوٹس لے۔ سکھوں کے ماورائے آئین قتل، جبری گمشدگیوں اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ خالصتان کے قیام تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ اس سکھ ریلی کو کئی پنتھک کمیٹیوں، سکھ تنظیموں اور گوردوارہ کی انتظامی کمیٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔