نئی دلی(نیوز ڈیسک )جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ میں واقع ملیانہ میں 23مئی 1987 کے مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث تمام 39ملزموںکو رہا کرنے کے عدالت کے فیصلے کو مایوس کن قراردیا ہے ۔
محمود اسعد مدنی نے ایک بیان میں عدالت کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ 35سال بعد بھی متاثرہ خاندانوںکو انصاف نہ دینا اور ملزمین کو بری کرنا نہ صرف انصاف میں تاخیر بلکہ انصاف سے انکار کی بدترین مثال ہے۔واضح رہے کہ میرٹھ میں ہاشم پورہ-ملیانہ سانحہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ ہے جب 22 مئی 1987 کو ہاشم پورہ میں فوج اور پی اے سی نے مسلمانوں کو گھروں سے باہر نکال کر گھر گھر تلاشی لی اور پھر مسلمانوں کو گولیاں مار کر ان کی لاشیں گنگ نہر اور ہنڈن ندی میں پھینک دی تھیں۔ اس کے اگلے دن ملیانہ قتل عام ہوا، جہاں مبینہ طور سے پی اے سی کی 44ویں بٹالین کے کمانڈنٹ آر ڈی ترپاٹھی کی کمان میں 72 مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس قتل عام پر درج کی گئی ایف آئی آر میں پی اے سی کے کارکنوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے کی گئی تحقیقات اور استغاثہ کی طرف سے ناقص چارج شیٹ تیار کرنے کی وجہ سے متاثرین کو انصاف فراہم نہیں ہو سکا۔مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ ریاستی استغاثہ کی ناکامی اور اس عرصے کے دوران قائم ہونیوالی تمام حکومتوں کی طرف سے مجرموں کی پشت پناہی کا مظہر ہے۔انہوں نے کہاکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل ہو اور قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ،یہ بات ہر گز سمجھ سے بالاترہے اور اس پہ خاموشی یا اسے نظر انداز کرنا خود ایک جرم ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان مثالوں سے بھارتی تحقیقاتی اداروں کی خامیاں اور عدالتی نظام کی سست روی ظاہر ہوتی ہیں، جب انصاف مانگنے والوں کی کئی کئی نسلیں انصاف کے انتظار میں ختم ہوجاتی ہیں اور قاتل آزادی کے ساتھ اپنی پوری زندگی بسر کرتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے ہمیشہ فسادیوں اور قاتلوں کو حوصلہ ملتا ہے اور ان کی مذموم سازشوں کادائرہ وسیع ہوتا ہے۔مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے اور استغاثہ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی میں جوکوتاہی ہوئی اسے دور کرنے کی پوری کوشش کرے اور اس غفلت کے مرتکب پولیس اہلکاروں اور استغاثہ کے افسران کے خلاف کارروائی کرے۔