نئی دہلی(نیو زڈیسک) نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے حال ہی میں تاریخ کی کتابوں سے کچھ اقتباسات کو حذب کیا گیا ہے۔ خاص طور پر بارہویں جماعت کی نصابی کتاب سے مغلوں سے متعلق کچھ حصے اور گیارہویں جماعت کی کتاب سے نوآبادیات سے متعلق حصوں کو ہٹایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مہاتما گاندھی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے متعلق کچھ حقائق کو بھی حذب کیا گیا ہے۔
این سی ای آر ٹی کے اس اقدام کے خلاف رومیلا تھاپر، جینتی گھوش، مریدولا مکھرجی، اپوروانند، عرفان حبیب اور اپیندر سنگھ سمیت تقریباً 250 ماہرین تعلیم اور مورخین نے آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے دستخطی مہم کے ذریعے این سی ای آر ٹی کے اس اقدام کی مخالفت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے مخصوص ابواب کو حذب کرنا حکومت کے متعصبانہ ایجنڈے کو بے نقاب کرتا ہے۔
مورخین نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ برصغیر پاک و ہند کے آئین اور ثقافت کے خلاف ہے اور اسے منسوخ کیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب یونیورسٹی سطح کے اساتذہ کی تنظیم ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کا کہنا ہے کہ اگر ‘واٹس ایپ یونیورسٹی’ کو اسی طرح ہندوستانی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ہڑپ کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے گی تو ہندوستانی جمہوریت بری طرح متاثر ہوگی۔
خیال رہے کہ پچھلے سال این سی ای آر ٹی نے مختلف مضامین کی کتابوں سے متعدد ابواب اور حقائق کو ہٹایا تھا۔ این سی ای آر ٹی کی طرف سے کی گئی ان تبدیلیوں کے بعد اب یہ نئی کتابیں طلبہ کو پڑھائی جانی ہیں۔ ایسی ہی ایک بڑی تبدیلی کے تحت این سی ای آر ٹی نے 12ویں جماعت کی نصابی کتاب میں موجود اس حقیقت کو بھی ہٹا دیا ہے کہ مہاتما گاندھی کی ہندو مسلم اتحاد کی جدوجہد کے سبب ہندو انتہا پسند مشتعل ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ وہ پیراگراف بھی ہٹا دیے گئے ہیں جن میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد کچھ عرصے کے لیے آر ایس ایس پر پابندی لگانے کی اطلاع دی گئی تھی۔
گزشتہ سال این سی ای آر ٹی نے نصابی کتابوں سے گجرات فسادات اور مغلیہ سلطنت وغیرہ کے ابواب کے حوالہ جات کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ این سی ای آر ٹی نے کلاس 6 سے 12 ویں کی مختلف کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ 12ویں جماعت کی کتاب پالیٹکس ان انڈیا سنس انڈیپنڈینٹ سے پاپولر موومنٹس اور ایرا آف ون پارتی ڈومیننس کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح دسویں جماعت کی نصابی کتاب ‘جمہوری سیاست-2’ سے جمہوریت اور تنوع، مقبول جدوجہد اور تحریکیں اور جمہوریت کے چیلنجز کے ابواب کو ہٹا دیا گیا ہے۔
وہیں، این سی ای آر ٹی کا کہنا ہے کہ اسکول کی کتابوں میں کی گئی تبدیلیاں کسی کو خوش کرنے یا ناراض کرنے کے لیے جان بوجھ کر نہیں کی گئیں۔ این سی ای آر ٹی کے سربراہ دنیش پرساد سکلانی نے کہا کہ یہ تبدیلیاں خالصتاً ماہرین کے مشورے کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب این سی ای آر ٹی بھی قومی تعلیمی پالیسی کی بنیاد پر تمام کلاسوں کے لیے نئی کتابیں لانے جا رہا ہے۔ بنیاد کی سطح پر نئی کتابیں بنانے کا کام بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔