ممبئی(نیوز ڈیسک) بھارتی سموں کے ذریعے سادہ لوح عوام کو کیسے لوٹا جاتا ہے، حقائق سامنے آئے ہیں۔ دُنیا میں بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی نے ایک طرف تو بہت ساری آسانیاں پیدا کی ہیں ساتھ ہی متعدد نئے جرائم کو بھی جَنم دیا ہے، اسی سے متعلق بھارتی ریاست گجرات کے شہر ودودارا میں سائبر کرائم کی روک تھام کرنے والے اداروں نے موبائل فون سِموں کا استعمال کرکے فراڈ کرنے والے ایک گروہ کا پتہ لگا لیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جعل ساز گروہ بھارت سے خریدی جانے والی موبائل فون سمیں دیگر ممالک میں بھیجتا ہے، جو بعد میں مالی فراڈ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ گروہ سم کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے بھارت میں لوگوں کو نشانہ بناتا ہے اور سادہ لوح عوام کے بینک اکاؤنٹس سے پیسے چوری کرتا ہے۔
اس حوالے سے اے سی پی سائبر کرائم ہاردک مکاڈیا کا کہنا ہے کہ گروہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ جُرم انجام دیتے ہیں تاکہ وہ کبھی بھی ٹریس نہ ہوسکیں، تاہم ہم نے کچھ روز پہلے ہی اس گروہ کے ایک کارندے اور سائبر فراڈ میں ملوث ایک مشکوک شخص کو بھی گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ ملزمان اپنے قریبی افراد کے شناختی دستاویزات اور جعلی آئی ڈی کارڈز سے بڑی تعداد میں سم کارڈ خرید رہے تھے، پھر اس گروہ کے کارندے تمام سم کارڈ دبئی لے جاتے ہیں جہاں انہیں 2000 سے 2500 بھارتی روپے میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اے سی پی مکاڈیا نے واضح کیا کہ دبئی میں ایک مڈل مین تمام سم کارڈ خریدتا ہے، اس کے بعد انہیں فراڈیوں تک پہنچاتا ہے لیکن ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چینی گینگ آن لائن فراڈ کرنے کے لیے یہ سم کارڈ خریدتا ہے، جبکہ ان میں سے متعدد سمیں گینگ کے پاس جاتی ہیں، جو ٹیلی گرام پر اکاؤںٹس بنا کر لوگوں کو میسج کرتے ہیں۔ خیال رہے یہ جعل ساز لوگوں کو رقم میں اضافہ کرنے کی مختلف اسکیموں کا لالچ دیتے ہیں اور بدلے میں انہیں منافع دینے کا یقین دلاتے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بھارتی سموں کو بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی مدد سے لوگوں کے بینک اکاؤںٹس سے رقم چوری کی جاتی ہے۔ گجرات کے شہر دودارا کے سائبر کرائم ماہرین نے حال میں ہی ایک شخص کو پکڑا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ 50 سم کارڈز دبئی میں رہنے والی ایک خاتون تک پہنچائیں اور وہ خاتون تمام سمیں چینی گینگ کو دیتی ہے۔ پولیس نے مزید کہنا ہے کہ اگر ہم گینگز کو ٹریس کرتے ہیں تو ان کی سی پی لوکیشن تک جانا بہت مشکل ہے، اس کے بعد یہ معاملہ انٹرپول کے پاس جائے گا۔