جی 20 دنیا کی 20بڑی معیشتوں کا فورم ہے جس میں 19 ممالک شامل ہیں جن میں ترقی پذیر اور صنعتی ممالک کے ساتھ یورپی یونین بھی شامل ہے۔ اس کاقیام 1999ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ دسمبر 2022 ء سے اس کی صدارت بھارت کے پا س ہے اور بنیے نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جی 20 کو بطور ہتھیار استعمال کر تے ہوئے چانکیائی عیاری و مکاری سے جی20 سربراہی کانفرنس کو نیو دہلی سے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر منتقل کرکے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی سازش رچائی ہے۔ اس بھارتی اقدام سے جی 20 کی ساکھ، غیر جانبداری، انصاف پسندی اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی پاسداری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ فاشسٹ بھارتی حکومت نہ صرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور یو این او کی سلامتی کونسل کے تحت متنازع قرار دیے جانے والے علاقے پر اپنی خود مختاری اور ناجائز تسلط کا اعلان کرنے کے لیے بالواسطہ طریقہ اختیار کر رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں کشمیریوں کی نسل کشی، انسانی حقوق، شہری، سماجی، سیاسی اور مذہبی آزادیوں پر قدغن کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی بڑی معاشی طاقتوں کی رضا مندی حاصل کرلے گی۔ بھارتی قیادت کا خیال ہے کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کو جائز اور بین الاقوامی سطح پر من و عن قبول کر لیا جائے گا، نیز اس سربراہی کانفرنس سے بھارت کو کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے میں آسانی ہو جائے گی۔ مودی سرکار کا یہ اقدام اقوام متحدہ میں کشمیر فائل کو مستقل بند کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اقدام بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے لیے بھی تباہ کن ہو گا جن کو مودی کی ہندوتوا حکومت کی جانب سے مسلسل منظم نسل کشی کا سامنا ہے۔
بھارت کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادیں ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت آزاد جموں کشمیرپر پاکستان کے دعوے درست نہیں اور اسی لیے جی ٹونٹی کا اجلاس سرینگر میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ نجانے پاکستان کے حکمران اور ہماری سیاسی قیادت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بھارت یہاں نہیں رکے گا بلکہ نریندر مودی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اس کے بعد بھارت کا اگلا ہدف گلگت بلتستان ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی تمام تر توجہ غیر ملکی دوروں پر ہے اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر وہ بالکل خاموش ہیں۔ حالا نکہ ان کے نانا‘ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر سر فہرست تھا۔
غاصب بھارت کی مقبوضہ کشمیرمیں کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے تیاریاں عروج پر ہیں، مہمانوں کے راستے میں بنے بنکرز عارضی طور پر منتقل کیے جارہے ہیں، غیر قانونی طور پر کشمیر پر قابض بھارت کی پوری توجہ دنیاکو یہ تاثر دینے پر مرکوز ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امن کی صورتحال خراب نہیں بلکہ تسلی بخش ہے، نیز کشمیری عوام بھارت کے ساتھ عافیت محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ مقبوضہ وادی میں علیحدگی پسندی کے رجحان کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سربراہی میں بھارتی ادارے اور ایجنسیاں غیر معمولی انتظامات میں مصروف ہیں، کمانڈوز اور شوٹرز کے خصوصی دستے سرینگر اور گلمرگ میں تعینات کیے گئے ہیں، اینٹی ڈرون کیمرے اور نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے دیگر جدیدآلات مقبوضہ علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔ اجلاس سے قبل گھر گھر تلاشی کا عمل بھی جاری ہے۔ کشمیریوں کو کسی بھی احتجاج کی صورت میں خطرناک نتائج کاسامنا کرنے کے لیے تیاررہنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ علاقے میں خوف ودہشت کی فضا برقرا ر رکھنے کے لیے انڈین قابض آرمی نے سرینگر کے تاریخی عیدگاہ میدان میں نمازِ عید کی اجازت بھی نہیں دی۔ فورسز نے کرفیو لگا کر روزمرہ کے معمولات کے لیے بھی ا وقات مقرر کر رکھے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ کشمیری باشندوں کو گرفتار کرنے کے بعد بھارت کی دوردراز جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ حالات بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آئینہ دار اور غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ دشمن پوری تیاری کے ساتھ ہمارے سر پر سوار ہو چکا ہے اور ہماری حکومت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے۔ کشمیریوں کے لیے پاکستان کی حمایت آ کسیجن کا کام کرتی ہے مگر افسوس ! ہمارے سیاسی قائدین کو الیکشن اور اقتدار کی لڑائی سے ہی فرصت نہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کی برطرفی کو مغربی سازش قرار دیتے ہوئے اپنے ہی اداروں کے خلاف منفی مہم چھیڑ رکھی ہے، دوسری جانب حکومت بھی مکمل طور پر سیاسی جھمیلوں میں مگن ہے اور بدلتے عالمی و علاقائی حالات پر اس کی ذرہ بھر بھی نظر نہیں۔
مذکورہ اجلاس کا مقبوضہ وادی میں انعقاد ہمالیہ کے خطے پر بھارت کے قبضے کو برقرار رکھنے کے خودغرضانہ اقدامات کے مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ اپنے مفاداتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اہم عالمی گروپ کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ عالمی برادری متنازع علاقے پر اس کے ناجائز تسلط کو تسلیم کر لے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں وادیٔ جموں وکشمیر کے بھارت میں انضمام کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سفارتی جیت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جولائی 2019ء میں دورۂ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی مقبوضہ کشمیر پہ ثالثی کی پیشکش پر کہا تھا کہ یوں لگا کہ جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں اور اس کے ایک ہفتہ بعد ہی مقبوضہ کشمیر کی تخصیصی حیثیت ختم کر دی گئی اور اس کو ہڑپ کر لیا گیا۔ سابق وزیر اعظم کے اقدامات تین جمعہ تک آدھ گھنٹہ احتجاج اور 30 منٹ کی خاموشی سے آگے نہ بڑھ سکے۔ دوسری جانب مودی نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے آزاد کشمیر پر سرجیکل سٹرائیکس کے دعوے کرنا شروع کر دیے۔
کوئی شک نہیں کہ آرٹیکل 371 اور 35 اے کے خاتمے کے غیر قانونی بھارتی اقدام پر ہماری حکومت نے کوتاہی دکھائی اور خارجہ محاذ پر بھی کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کی اور اسی سے شہ پا کر اب بھارت کا اگلا قدم مقبوضہ وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے جس کے لیے 45 لاکھ ہندوئوں کو بھارت کے مختلف علاقوں سے بلا کر کشمیر میں بسایا جا رہا ہے۔ انہیں ملازمتیں دی جا رہی ہیں، کشمیر کی زمین کوڑیوں کے بھائو انہیں فروخت کی جا رہی ہے۔ بڑے بھارتی کاروباری گروپوں‘ متل اور امبانی کو کشمیریوں کے معدنی وسائل ہڑپنے کے لیے سرکاری ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔ وہاں حقِ خود ارادیت کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اب بھارت کی کوشش ہے کہ ستمبر 2023ء میں جی ٹونٹی کانفرنس کے انعقاد سے قبل ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کر کے ایک ڈمی حکومت کو یہاں بٹھا دے اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ یہاں کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔
افسوس کہ کشمیر کی آزادی کے لیے اٹھنے والی توانا آوازیں اب نہیں رہیں۔ سید علی گیلانی، جنرل (ر) حمیدگل اور قاضی حسین احمد جیسے حریتِ کشمیر کے علمبرداروں کے بعد کشمیر کی تحریکِ آزای کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارت کی سازشیں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اجیت دوول کی طرف نے بھارت کے نقشے میں آزاد کشمیر کو بھی بھارتی حصہ دکھا یا گیا تھا اور اب اسی منصوبے کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں صرف چین نے جی 20 کانفرنس کے مقبوضہ کشمیر میں انعقاد کے بھارتی اقدام اور مذموم عزائم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ چین کے مطابق‘ مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف مستقل اور واضح ہے۔ لداخ وہ خطہ ہے جس پر تین ایٹمی طاقتیں؛ بھارت، چین اور پاکستان موجود ہیں اور یہ دنیا میں سب سے بڑا ملٹری زون ہے۔سی پیک کی وجہ سے اس کی سٹریٹیجک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک جانب بھارت کی طرف سے خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری جانب کشمیر کمیٹی مسلسل غیر فعال ہے۔ پاکستان کی بطوراہم فریق یہ کوتاہی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی منزل کو مزید دور کر سکتی ہے۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ کم ازکم مقبوضہ کشمیر سے متعلق ہی ایک پیج پر ہونے کا تاثردینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھیں۔ اربابِ اختیار کو نہ صرف اقوامِ متحدہ کی توجہ اُس کی منظور کردہ قرار دادوں کی طرف مبذول کرانی چاہیے بلکہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں کو بھارتی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے متحرک کرنا چاہیے۔ مودی کی بلڈوز رسیاست، مقبوضہ جموں و کشمیر کے معدنی وسائل کی لوٹ مار، صحافیوں کی گرفتاری سمیت بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا مقدمہ واضح شواہد اور دلائل سے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ بھارت کو مذموم مقاصد کی تکمیل سے روکا جا سکے۔
بلا شبہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے اور محصور کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم سے بخوبی آگاہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا نے معاشی مفادات کی خاطر بھارت کو مقبوضہ وادی میں ظلم ڈھانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے مطابق کسی بھی متنازع علاقے میں کوئی عالمی سطح کی کانفرنس یا اجلاس منعقد نہیں کیا جا سکتا مگر بھارت متنازع علاقے میں جی 20 کانفرنس کی میزبانی کر کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ جی 20 اجلاس کی آڑ میں بھارت 5 اگست 2019ء کے اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے مگر دنیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر پہ قابض بھارت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا مرتکب ہے اور ایک مقبوضہ علاقے میں جی ٹونٹی اجلاس سے یقینا اس تنظیم اور یواین کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔مذکورہ کانفرنس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، ارجنٹائن، کینیڈا، آسڑ یلیا،جرمنی، روس، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ، میکسیکو، براز یل، اٹلی اور چین سمیت سعودی عرب، ترکیہ اور انڈو نیشیابھی آرہے ہیں، علاوہ ازیں 43 دیگر وفود کی شرکت بھی یقینی ہے۔ ہم مسلم ملکوں سے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے لیے بھارت پر دبائو ڈالنے کے لیے اپیل کر سکتے ہیں۔ دیگرجی 20 ممالک کو بھی باور کرا سکتے ہیں کہ وہ اس تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیں کہ وہ مقبوضہ وادی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی اجازت دے اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے کیونکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا یہی واحد راستہ ہے۔